Friday, June 17, 2022

Best collection Moral Quotes in Urdu | New Quotes| Life changing quotes |

اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔ تمہیں جو بھی مصیبت پہنچی اس سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی۔ عورت کی بے پردگی مرد کی بے حیائی کا ثبوت ہے۔ ٭  بے پردہ عورت اللہ کے نزدیک کو ئی عزت نہیں رکھتی۔ بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا رحمت کو اپنے اوپر واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے۔ وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا پڑوسی اس کے تکلیف دینے سے محفوظ نہ ہو۔ سچائی ایک ایسی دوا ہے جس کی لذّت کڑوی مگر تاثیر میٹھی ہے۔  اگر تمہیں ایک دوسرے کی نیتوں کا علم ہوتا تو تم ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کرتے۔ عبادت ایک تجارت ہے جس کی دکان - تنہائی، مال - پرہیزگاری اور نفع - جنت ہے۔

Tuesday, January 11, 2022

Best collection Quotes in Urdu | Amazing Quotes, Motivational Quotes, Quotes about Mard and Aurat,

مطلبی لوگوں کیساتھ رہنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے کل تکلیف تو ضرور ہوتی ہے لیکن دنیا پوری انہیں کے اندر دکھادئی دینے لگ جاتی ہے ۔ دنیا میں ہزاروں رشتے بناؤ مگر ان میں ایک رشتہ ایسا ضروربناؤ کہ جب ہزاروں آپ کے خلاف ہوں تو وہ ایک آپ کے ساتھ ہو ۔ وہ لوگ کسی کے نہیں ہوتے جو دوست اور رشتوں کو لباس کی طرح بدلتے ہیں ۔ انسان سخت مزاج تب بنتا ہے جب بہت سارے لوگ اس کی نرمی کا غلط فائدہ اٹھا چکے ہوتے ہیں ۔ زندگی کی ٹھوکر بہت نرالی ہوتی ہے جب بھی لگتی ہے کسی کی اصلیت دکھا جاتی ہے یا پھر کچھ نہ کچھ سکھا جاتی ہے ۔ ردخت جتنا اونچا ہوگا اس کا سایا اتنا ہی کم ہوگا اس لئے اونچا بننے کے بجائے بڑا بننے کی کوشش کریں ۔ برتن اور ظرف اگر چھوٹا ہو تو زیادہ چیز سنبھال نہیں سکتا چھلک جاتا ہے چاہے علم ہو دولت ہو تقویٰ ہو شہرت ہو یا عزت ۔ دیواریں اور پل ایک ہی میٹیریل سے بنتے ہیں لیکن پل لوگوں کو ملاتا ہے اور دیواریں ان لوگوں کو تقسیم کرتی ہیں اس لئے لوگوں کے درمیان دیواریں کھڑی کرنیوالے مت بنیں بلکہ ان کو ملانے والے پل بنیں ۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ایسی عورت سے ہمیشہ فاصلہ رکھو جس کی دو چیزیں ظاہر ہو رہی ہوں ورنہ شیطان بہکا دیگا۔ اول ۔۔ لباس میں عورت کا بدن ظاہر ہورہا ۔ دوم ۔۔ بولتے وقت اس کی بد اخلاقی ظاہر ہورہی ہو ۔

Friday, January 7, 2022

Best collection Quotes in Urdu | Deep Quotes about Mard and Aurat | Motivational Quotes | Heart touching Quotes |

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حج کرنے گیا ، وہاں منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ میں مَیں نے ایک شخص کو دیکھا جو بلند آواز کے ساتھ بار بار پکار رہا تھا لبیک لبیک لبیک اور غیب سے آواز آتی لا لبیک لا لبیک لالبیک سرکار فرماتے ہیں کہ یہ سارا ماجرا دیکھ کر میں نے اس شخص کو بازو سے پکڑا اور بھرے مجمع سے باہر لے آیا اور پوچھابھلے مانس تجھے پتہ ہے کہ جب تو پکارتا ہے کہ اےمیرے اللّہ ﷻ میں حاضر ہوں تو عالمِ غیب سے حاتِب کی آوز آتی ہے نہیں تو حاضر نہیں ہے تو وہ شخص بولا ہاں معین الدینؒ میں جانتا ہوں اور یہ سلسلہ پچھلے 24 سالوں سے جاری ہے یہ میرا چوبیسواں حج ہے وہ بڑا بے نیاز ہے میں ہر سال یہی امید لیکر حج پر آتا ہوں کہ شايداس دفعہ میرا حج قبول ہو جاۓ لیکن ہر سال ناکام لوٹ جاتاہوں سرکارؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اسے کہا کہ ہر بار ناکامی ،اور نامرادی کے باوجود تو پھر کیوں چلا آتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ رُندھی ہوٸی آواز میں گڑگڑاتے ہوۓ بولا ۔ اے معین الدینؒ تو بتا میں یہاں نہ آٶں تو کدھر جاٶں اُس کے سوا میرا کون ہےکون میری باتیں سننے والا ہےکون میرے گناہ معاف کرنے والا ہےکون میری مدد کرنیوالا ہےمیں کس در پہ جا کر گڑگڑاٶں کون میری دادرسی کرے گاکون میرا خالی دامن بھرے گا کون مجھے بیماری میں شفا دے گاکون میرے گناہوں کی پردہ داری کرے گامعین الدینؒ مجھے بتا اگر کوٸی دوسرا رب ہے تو بتا میں اسکے پاس چلا جاتا ہوں ، مجھے بتا معین الدینؒ اسکے علاوہ اگر کوٸی در ہے تو میں وہاں جاٶں روٶں اور گڑگڑاٶ سرکار فرماتے ہیں اسکی باتیں سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ، جسم پر لرزہ طاری ہو گیااور میں نے اپنے لرزتے ہاتھ بارگاہِ خداوندی میں دعا کیلیے اٹھاۓ اور کپکپاتے ہونٹوں سے ابھی صرف اللّہﷻ کو پکارنا شروع ہی کیا تھا کہ غیب سےآوازآٸی اے معین الدین یہ ہمارا اور اس کا معاملہ ہے تو پیچھے ہٹ جا تم نہیں جانتے کہ مجھ اسکا اس طرح گڑگڑا کر لبیک لبیک لبیک کہنا کتنا پسند ہےاگر میں اسکے لبیک کے جواب میں آج ہی لبیک کہہ دوں اور اسے یہ یقین ہو جاۓ کہ اسکاحج قبول ہو گیا ہےتو وہ آئندہ حج کرنے نہیں آٸیگا اور یہ سمجھتا ہے کہ اسکا حج قبول نہیں ہورہاتواسے بتاٶ کہ پچھلے 23 سالوں سے جتنے بھی لوگوں کے حج قبول ہوۓ ہیں وہ سب اس کی لبیک لبیک لبیک کی بدولت ہی قبول ہوۓ ہیں . انسان اپنے دنیا میں آنے کا مقصد بھول چکا ہے وہ ساری زندگی دوسروں کو خوش کرنے میں گزار دیتا ہے اور جب وہی انسان مرجاتا ہے تو اس کے دوست اور رشتہ دار جنازہ پڑھ کے واپس آجاتے ہیں اولاد قبرستان تک اس کے ساتھ جاتی ہے پھر وہ بھی واپس آجاتے ہیں صرف ایک چیز ایسی ہے جو قبر میں بھی اس کے ساتھ جاتی ہے اور وہ ہیں اس کے اعمال اگر عمل اچھے ہیں تو سمجھو وہ کامیاب ہوگیا ۔ جب کوئی عورت کسی مرد سے ہنس کر باتیں کررہی ہو تو ہر دفعہ یہ مت سمجھ لینا کہ وہ مرد اس کا عاشق ہے وہ مرد اس کا بھائی بھی تو ہوسکتا ہے بس انسان کی سوچ اچھی ہونی چاہیے ۔ کیونکہ ہر کوئی اپنے ظرف کے متابق سوچتا ہے ۔

Best collection Quotes in Urdu | Quotes about Mard and Aurat, Aqwal in Urdu Hindi |

اعتماد ایک چھوٹا لفظ ہے جسے پڑھنے میں سیکنڈ سوچنے میں منٹ سمجھنے میں دن اور ثابت کرنے میں انسان کی زندگی گزر جاتی ہے ۔ انسان جب زندگی کے امتحانوں سے گزر کر پتھر ہوجاتا ہے تو اگر کوئی دل دکھا بھی دے تو برا نہیں لگتا ۔ خاموشیاں کبھی بے وجہ نہیں ہوتیں کچھ درد ایسے بھی ہوتے ہیں جو آواز چھین لیتے ہیں ۔ لوگ آپ کے خلاف جھگڑا کرسکتے ہیں آپ کے خلاف سازشیں کرسکتے ہیں آپ کا دل دکھا سکتے ہیں آپ کا برا چاہ سکتے ہیں آپ سے آپ کا سب کچھ چھیننے کی کوشش کرسکتے ہیں مگر چھین نہیں سکتے کیونکہ نصیب تک رسائی خالق نے کسی اور کو نہيں دی مایوسی کے لمحوں میں رب کائنات کو دیکھنا سیکھیں ۔ نکاہ آدھا دین ہے کسی لڑکی کی طرف ہاتھ اس وقت بڑھاؤ جب اسے بیوی بنانے کی ہمت رکھتے ہو صرف جانچنے کےلئے یا معیار پر پورا نہ اترنے پر دھتکارنے کےلئے نہیں ۔ ایسا نہیں کہ نفس کا شیطان مرگیا شیطان تو ہے زندہ ہاں انسان مرگیا سجدوں میں سر جھکانے کی فرصت نہیں رہی مومن کی روح میں بسا مسلمان مرگیا مسجد تو پکی بن گئی اور شاندار بھی کچی ہیں رب سے چاہتیں اور ایمان مرگیا باطل کو جھوٹ کہنے کی طاقت نہیں رہی ہو حق سر بلند یہ ارمان مرگیا اے انسان حیرت ہے تیری قسمت پہ کہ کس طرح پیدا ہوا تھا خوشنما اور ویران مرگیا عورت کو عموماً مرد کی شکل وصورت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اس لئے وہ کبھی چاہنے والے سے کبھی ہنسانے والے سے اور کبھی دولت لٹانے والے سے متاثر ہو جاتی ہے ۔

Tuesday, December 28, 2021

دو جگہ بیوی کو اکیلا مت چھوڑنا ۔خوبصورت اقوال کا مجموعہ۔

کوا وہ پرندہ جو عقاب کو تنگ کر سکتا ہے. یہ پرندوں کے بادشاہ عقاب کی پشت پر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی چونچ سے اسکی گردن پر کاٹتاہے۔ جبکہ کوے سے زیادہ طاقتور عقاب کوے کا مقابلہ کرنے میں اپنی طاقت اور وقت صرف نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اپنے پر کھولتا اور آسمان کی طرف اونچی اڑان بھرنا شروع کر دیتا ہے۔ عقاب کی پرواز جتنی بلند ھوتی جاتی ہے کوے کی اڑان اتنی ہی مشکل ہو جاتی ہے اور بل آخر وہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے گر جاتاہے۔ آپ کی پرواز کے سامنے آسمان کھلا ہواہے۔ اپنی اڑان کو اونچا کرتے جائیں تو بہت سی رکاوٹيں خود ہی دور ہوتی جائیں گی۔ اپنی طاقت عقاب کی مانند مثبت کاموں میں صرف کريں۔ اپنی پرواز کی قوت کو جان لیجیے۔ اور اسی پر یقین رکھیں... جب مشین کو زنگ لگ جائے تو پرزے شور کرنے لگ جاتے ہیں اور اگر عقل کو زنگ لگ جائے تو زبان فضول بولنے لگتی ہے ۔ زندگی تب بہترین ہوتی ہے جب آپکی وجہ سے کوئی دوسرا خوش ہوتا ہے اور جب کسی اپنے کو مصیب دیکھو تو سینہ تان کے کہو کہ گھبرانہ مت میں تمہارا اپنا ہوں ۔ بےشک انسانیت اور اچھا اخلاق انسان کو ہمیشہ بلند درجے پر رکھتا ہے وصول وہی کروگے جو دوسروں کو دوگے چاہے وہ دھوکہ ہو یا عزت ۔ محبت پہلے اندھی ہوتی تھی لیکن اب اس نے اپنا علاج کروا لیا ہے اب شکل بھی دیکھتی ہے اور بنک بیلنس بھی ۔ جو عورت آپ سے سچا پیار کرتی ہے وہ آپ سے دو باتیں ضرور پوچھے گی نمبر ایک مجھ سے پہلے تمہاری زندگی میں کوئی اور تھا یا نہیں نمبر دو میں تمہاری زندگی میں کتنی اہمیت رکھتی ہوں ۔

عورت کو قابو کرنے کا طریقہ ۔خوبصورت اقوال کا مجموعہ ۔

کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سےہوا ،ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھاکس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟ طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھےجس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا،اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو،آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،میرے ساتھ کھانا کھاؤ، اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی، کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی، تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..تم کہاں جا رہی ہو طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ، میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔، الو یہ سن کر ہنسا..اور کہا ..یہ تم کیا کہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو.اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تواُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہاایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کےحق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو، یہ اب میری بیوی کہاں ہے ، عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے اُلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا،نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے-میں تمہیں صرف یہ بتاناچاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے..!!۔ دانا کہتے ہیں کہ عورت کو قابو کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے اولاد جس سے عورت مرد سے وابستہ رہنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔

خوبصورت دل چھو لینے والے اقوال کا مجموعہ۔ زندگی کے تین اہم اصول۔

بادشاہ کا موڈ اچھا تھا! وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا ”تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے“ وزیر شرما گیا‘ اس نے منہ نیچے کر لیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”تم گھبراﺅ مت‘ بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاﺅ“ وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا ”حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں‘ میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا“ وزیر خاموش ہو گیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟“ وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا ”بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے‘ میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں“ بادشاہ نے فوراً احکامات لکھنے کا حکم دیا‘ بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا‘ دوسرے حکم میں بادشاہ نے وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا‘ وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا‘ بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ”تمہارے پاس تیس دن ہیں‘ تم نے ان 30 دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں‘ تم کامیاب ہو گئے تو میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق تمہارا سر اتار دیا جائے گا“ وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی‘ بادشاہ نے اس کے بعد فرمایا ”میرے تین سوال لکھ لو“ وزیر نے لکھنا شروع کر دیا‘ بادشاہ نے کہا ”انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟“ وہ رکا اور بولا ”دوسرا سوال‘ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے“ وہ رکا اور پھر بولا ”تیسرا سوال‘ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے“ بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور بآواز بلند فرمایا ”تمہارا وقت شروع ہوتا ہے اب“۔ وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ لگا دی‘اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور‘ ادیب‘ مفکر اور ذہین لوگ جمع کئے اور سوال ان کے سامنے رکھ دیئے‘ ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے لیکن وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیئے لیکن نتیجہ وہی نکلا‘ وہ آنے والے دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر دارالحکومت سے باہر نکل گیا‘ وہ سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا‘ وہ مارا مارا پھرتا رہا‘ شہر شہر‘ گاﺅں گاﺅں کی خاک چھانتا رہا‘ شاہی لباس پھٹ گیا‘ پگڑی ڈھیلی ہو کر گردن میں لٹک گئی‘ جوتے پھٹ گئے اور پاﺅں میں چھالے پڑ گئے‘ یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آ گیا‘ اگلے دن اس نے دربار میں پیش ہونا تھا‘ وزیر کو یقین تھا یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے‘ کل اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پُل پر لٹکا دیا جائے گا‘ وہ مایوسی کے عالم میں دارالحکومت کی کچی آبادی میں پہنچ گیا‘ آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی تھی‘ وہ گرتا پڑتا اس کٹیا تک پہنچ گیا‘ فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا‘ ساتھ ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور فقیر کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا تھا‘ فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی‘ قہقہہ لگایا اور بولا ”جناب عالی! آپ صحیح جگہ پہنچے ہیں‘ آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں“ وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ”آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا‘ میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے“ فقیر نے سوکھی روٹی کے ٹکڑے چھابے میں رکھے‘ مسکرایا‘ اپنا بوریا اٹھایا اور وزیر سے کہا ”یہ دیکھئے‘ آپ کو بات سمجھ آ جائے گی“ وزیر نے جھک کر دیکھا‘ بوریئے کے نیچے شاہی خلعت بچھی تھی‘ یہ وہ لباس تھا جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراءکو عنایت کرتا تھا‘ فقیر نے کہا ”جناب عالی میں بھی اس سلطنت کا وزیر ہوتا تھا‘ میں نے بھی ایک بار آپ کی طرح بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کر لی تھی‘نتیجہ آپ خود دیکھ لیجئے“ فقیر نے اس کے بعد سوکھی روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور دوبارہ پانی میں ڈبو کر کھانے لگا‘ وزیر نے دکھی دل سے پوچھا ”کیا آپ بھی جواب تلاش نہیں کر سکے تھے“ فقیر نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”میرا کیس آپ سے مختلف تھا‘ میں نے جواب ڈھونڈ لئے تھے‘ میں نے بادشاہ کو جواب بتائے‘ آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا‘ بادشاہ کو سلام کیا اور اس کٹیا میں آ کر بیٹھ گیا‘ میں اور میرا کتا دونوں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں“ وزیر کی حیرت بڑھ گئی لیکن یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا‘ جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی چنانچہ وزیر اینکر پرسن بننے کی بجائے فریادی بن گیا اور اس نے فقیر سے پوچھا ”کیا آپ مجھے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں“ فقیر نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا ”میں پہلے دو سوالوں کا جواب مفت دوں گا لیکن تیسرے جواب کےلئے تمہیں قیمت ادا کرنا ہو گی“ وزیر کے پاس شرط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلا دی‘فقیر بولا ”دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے‘ انسان کوئی بھی ہو‘ کچھ بھی ہو‘ وہ اس سچائی سے نہیں بچ سکتا“ وہ رکا اور بولا ”انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے‘ ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے“ فقیر کے دونوں جواب ناقابل تردید تھے‘ وزیر سرشار ہو گیا‘ اس نے اب تیسرے جواب کےلئے فقیر سے شرط پوچھی‘ فقیر نے قہقہہ لگایا‘ کتے کے سامنے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا‘ وزیر کے ہاتھ میں دیا اور کہا ”میں آپ کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک آپ یہ دودھ نہیں پیتے“ وزیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا ‘اس نے نفرت سے پیالہ زمین پر رکھ دیا‘ وہ کسی قیمت پر کتے کا جوٹھا دودھ نہیں پینا چاہتا تھا‘ فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا ” تمہارے پاس اب دو راستے ہیں‘ تم انکار کر دو اور شاہی جلاد کل تمہارا سر اتار دے یا پھر تم یہ آدھ پاﺅ دودھ پی جاﺅ اور تمہاری جان بھی بچ جائے اور تم آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جاﺅ‘ فیصلہ بہرحال تم نے کرنا ہے“ وزیر مخمصے میں پھنس گیا‘ ایک طرف زندگی اور آدھی سلطنت تھی اور دوسری طرف کتے کا جوٹھا دودھ تھا‘ وہ سوچتا رہا‘ سوچتا رہا یہاں تک کہ جان اور مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئی‘ وزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا‘ فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میرے بچے‘ انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے‘ یہ اسے کتے کا جوٹھا دودھ تک پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اس کٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا‘ میں جان گیا تھا‘ میں جوں جوں زندگی کے دھوکے میں آﺅں گا‘میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاﺅں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا‘ میں اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاﺅں گا اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کےلئے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا لہٰذا میرا مشورہ ہے‘ زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو جان لو‘ تمہاری زندگی اچھی گزرے گی“ وزیر خجالت‘ شرمندگی اور خودترسی کا تحفہ لے کر فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا‘ وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا‘ اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا‘ وہ اس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا‘ اس کے سینے میں خوفناک ٹیس اٹھی‘ وہ گھوڑے سے گرا‘ لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ہمیں کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر زندگی کے ان بنیادی سوالوں پر ضرور غور کرناچاہیے‘ ہمیں یہ سوچنا چاہیے ہم لوگ کہیں زندگی کے دھوکے میں آ کر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے‘ ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے‘ ہم کہیں اس کہانی کے وزیر تو نہیں بن گئے ‘ مجھے یقین ہے ہم لوگوں نے جس دن یہ سوچ لیا اس دن ہم غرض کے ان غلیظ پیالوں سے بالاتر ہو جائیں گے۔ ۔ جس مرد میں پیار اور عزت کرنے اور عورت کو خوش رکھنے کی خاصیت ہو تو عورت ایسے مرد کے عشق میں پاگل ہوجاتی ہے ۔