Tuesday, February 9, 2021

سلطان محمود غزنوی اور درویش

سلطان محمود غزنوی اور درویش عزت شہرت اور اقتدار کا سورج جب بھی کسی مٹی کے بنے انسان پر طلوع ہو تا ہے تو مشتِ غبار حضرت انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ کر ہ ارض پر اس سے زیا دہ خو ش قسمت طاقتور اور عقل و شعور کا اور کوئی مالک نہیں ہے اور پھر اِس نشے میں غرق وہ ناکامی کمزوری یا شکست بھو ل جاتاہے لیکن جب قدرت ایسے انسان کو ٹھو کر لگا تی ہے اوقات یا د دلاتی ہے تو پھر یہ اقتدار کے k2سے نیچے بھی اُترتا ہے اور دائیں بائیں بھی دیکھتا ہے ایسا ہی ایک کمزور لمحہ تاریخ انسانی کے عظیم فاتح سلطان محمود غزنوی پر بھی آیا محمود غزنوی جو سمجھتا تھا کہ پوری کائنات اُسی کے دم سے دھڑکتی ہے اُس کی اپنی نبض ڈوبنا شروع ہو گئی اور پھر سلطا ن محمو د غزنوی جیسا عظیم پر جلال فاتح ایک خاک نشین درویش کے در پر سوالی بن کے کھڑا تھا ۔ سلطان محمود ہندوستان پر کئی کامیاب حملے کر چکا تھا لیکن ایک شہر میں آکر فتح اُس سے روٹھ چکی تھی ناکامی بار بار اُس کامنہ چڑا رہی تھی کئی کوششوں کے با وجود سومنات کی بت شکنی کر نے میں ناکام رہا تھا ناکامی کے بعد اُس نے امید بھری نظروں سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا سہا رے ڈھونڈنا شروع کر دیئے ۔ مشکل کے اس وقت میں اسے ایک صاحب کرامت درویش کا پتہ چلا جس کی دعائیں با رگاہ الٰہی میں قبول ہو تی تھیں لیکن با دشاہ وہاں جانا تو ہین سمجھ رہا تھا اِ س لیے اُس نے سوچا پہلے درویش کی ولا یت کو آزمایا جا ئے اگر وہ اس آزمائش کی کسو ٹی پر پورا اُتر ے تو پھر اُس سے مدد ما نگی جائے اب سلطان نے اپنے خاص غلام ایاز کو بلا یا اور کہا میں ایک صاحب کرامت بزرگ سے ملنا چاہتا ہوں لوگوں کے بقول اُس کا دوسرا ثانی کر ہ ارض پر موجود نہیں ہے لیکن میں اُس سے ملاقا ت سے پہلے اُس کے روحا نی کمالات اور مقام کا امتحان لینا چاہتا ہوںاِس کے لیے تمام انتظامات تم کرو گے یہ تمام خفیہ طو رپر ہو نگے خدام اور کنیزوں کو ساتھ لیا جائے گا ہم اُس کی درگا ہ سے کچھ دور قیام فرمائیں گے ایاز نے سلطان کے حکم کی تعمیل شروع کر دی اب سلطان کنیزوں غلاموں اور ایاز کے ساتھ اُس درویش کی طرف روانہ ہوا اور قریب جاکر خیمے لگا دئیے‘ خیمے لگ گئے تو سلطان نے درویش کی طرف اپنے چند آدمی روانہ کئے اور انہیں یہ پیغام بھجوایا ‘خدا کا فرمان ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اُس کے رسولوں کی اطاعت کرو اُس کے بعد حاکم وقت کی اطاعت کرو پھر میرا سلام دینا اور کہنا سلطا ن محمود غزنوی نے آپ کو یاد کیا ہے ۔ درویش نے جب با دشاہ کا پیغام سنا تو ادائے بے نیازی سے فرمایا مجھے اللہ نے با دشاہ کی آمد کی اطلاع پہلے ہی دے دی ہے دوسری با ت اُس کے پیغام کی ہے تو میں اللہ کی اطاعت میں اس قدر گم ہوں کہ مجھے کسی اور کی اطاعت کا ہوش ہی نہیں ہے اِن حالات میں امیر کی اطاعت کی پرواہ بھی نہیں ہے اِس لیے با دشاہ کو ضرورت ہے تو وہ خو د فرش نشین کے پاس آجائے سلطا ن محمود غزنوی نے جب یہ پیغام سنا تو برملا پکا ر اُٹھا یہ واقعی کوئی صاحب کرامت کامل بزرگ ہیں غلام ایاز نے ادب سے کہا شہنشاہ حضور میں تو پہلے ہی فکر مند تھا کہ کہیں یہ بزرگ آپ کے پاس آنے سے انکار ہی نہ کر دیں کیو نکہ میرا دل گوا ہی دے رہا تھا کہ یہ کو ئی اللہ کے حقیقی بے نیاز بزرگ ہیں ایاز کی با ت سن کر محمود نے فیصلہ کیا کہ درویش وقت کی با رگا ہ میں بنفس نفیس جایا جا ئے اب بادشاہ نے ایاز کو حکم دیا کہ میری جگہ وہ شاہی لبا س پہن لے اور خود ایاز کا غلامانہ لبا س محمود نے پہن لیا اور صحت مند کنیزوں کو مردانہ لباس پہنا دیا گیا اور سب کو حکم جا ری کیا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں اور ایازکو تا کید کی کہ وہ فقیر کے حضور بطو ربا دشاہ پیش ہو گا اور محمود بطور غلام پیش ہو گا بادشاہ ابھی بھی بزرگ کی ولا یت آزمانے کے چکر میں تھا اب جب ایاز اور محمود درویش کے دربار میں پہنچے تو ایاز نے بادشاہوں کی طرح سلام کیا اب درویش نے ایاز کے سلام کا جواب تو دیا لیکن اصل تو جہ محمود کو دی ایاز کو تو جہ نہ دی زیا دہ گفتگو محمود سے کی آخر محمود نے کہا حضرت آپ ہما رے با دشاہ پر تو جہ کیوں نہیں دے رہے تو درویش نے دھیمے دلنشیں لہجے میں فرمایا میں تیرے بادشاہ سے نہیں تجھ سے با ت کر نا چاہتا ہوں محمود نے حیرت سے پو چھا حضرت کیوں ؟ تو درویش نے گہری نظروں اور تبسم بھرے لہجے میں کہا اِس لیے کہ تمہا را بادشاہ چند لمحوںکا ہے اور اُسے مجھ سے کچھ دریا فت بھی نہیں کر نا لہٰذا میں اس سے بات کیا کروں محمو د حیرت سے بولا حضور میں آپ کی با ت سمجھا نہیں تو درویش کے لہجے میں اب ہلکا سا جلال آگیا اورکہا فریب کا جال تو بن سکتے ہو مگر میری آسان بات نہیں سمجھ سکتے تم نے میرا امتحان لینے کے لیے اپنے غلام کو شاہی لباس پہنا کر بادشاہ بنایا ہوا ہے تا کہ تم مجھے اپنے سامنیشرمندہ کرسکے لیکن یہ تمہا ری حما قت ہے تو ایسے ہزاروں شاطرانہ جال بن لے میرا خدا مجھے سر خرو ہی کر ے گا با دشاہ اپنے ہی عرق ندامت میں ڈوب گیا اور شرمندہ معذرت خوا ہانہ لہجے میں بو لا میں نے جال ضرور بچھا یا مگر آپ جیسا شہبا ز میرے جال میں نہیں پھنس سکا پھر درویش نے پر جلال آواز میں کہا اِ ن غیر محرم عورتوں کو با ہر نکال دو تا کہ تمہارے ساتھ کو ئی بات کی جا سکے محمو د نے شرمندہ ہو کر کنیزوں کو با ہر بھیج دیا تو درویش نے دعا دی اور کہا خدا تمہا ری عاقبت سنوار دے محمود نے آپ کی خدمت میں اشرفیوں کی بو ری پیش کی تو فقیر نے کہا پہلے تم میر ی یہ خشک روٹی کھا ئو بادشاہ نے روٹی منہ میں ڈالی مگر کوشش کے با وجود اُسے نگل نہ سکا معذرت کی کہ روٹی مجھ سے نگلی نہیں جا رہی اب درویش نے فرمایا جس طرح میری خشک روٹی تم نہیں نگل سکتے اِسی طرح تمہا ری اشرفیاں میرے حلق میں پھنس جا ئیں گی لہٰذا اِن کو واپس لے جائو با دشاہ نے کہیں زیا دہ منت سما جت کی لیکن بے نیاز درویش نے انکار کیا پھر با دشاہ نے دعا کی درخواست کی کہ دعا کر یں خدا مجھے سومنات کا قلعہ فتح کرنا نصیب کر ے درویش با کمال نے دعا فرمائی اور اپناپیراہن با دشاہ کو دیا اور پر جلال لہجے میں کہا اب جب تم حملے کی غرض سے ہندوستان جائو تو نماز کے بعد میرا یہ پیراہن ہاتھ میں پکڑ کر خدا کی با رگاہ میں دعا کر نا خالق کائنات تمہیں عظیم الشان فتح سے ہمکنا ر کر ے گا اور پھر ایسا ہی ہوا محمو دہندوستان گیا تو درویش خدا کے پیرا ہن کی بدولت فاتح سومنا ت بن کر لوٹا اور آنے کے فورا بعد درویش کی با رگاہ میں حاضر ہو کر شکریہ ادا کیا بہت سارے تحائف اور اشرفیاں پیش کیں اور درخواست کی کہ کو ئی حکم ہو تو میں بجا لا نے میں خو شی محسوس کروں گا سلطان نے فقیر کی خانقاہ کی بہت زیا دہ تعریف کی تو بے نیاز فقیر نے فرمایا محمود تم اتنی وسیع و عریض سلطنت کے اکلوتے وارث ہو دنیا جہاں کی نعمتیں تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو چکی ہیں اِس کے باوجود تمہا ری ہو س کم نہیں ہو رہی وسیع و عریض سلطنت کے ہو تے ہو ئے تم پھر بھی درویش کی جھو نپڑی پر نظر رکھتے ہو با دشاہ شرمندہ ہوا اور رخصت ہو نے لگا تو درویش اُس کے احترام میں کھڑے ہو گئے محمود بو لا حضرت جب میں پہلے حاضر ہوا تو آپ نے یہ عزت مجھے بالکل بھی نہیں دی اب کیا وجہ ہے تو آپ نے فرمایا پہلے تمہا رے ساتھ شاہی غروراور جلال تھا اور تم میرا امتحان لینے آئے تھے جبکہ اِس بار تمہارا ظاہر و با طن عاجزی انکساری سے بھرا ہوا ہے اِس لیے اب تمہا ری تعظیم لا زم ہو گئی ہے بادشاہ سلطان محمود غزنوی جس درویش کے در پر دامن مراد پھیلا ئے حاضر ہوا وہ اپنے وقت کے مشہور و معروف حضرت صاحب ولایت کرامت بزرگ حضرت ابو الحسن خر قانی ؒ تھے جو روحانی فیض کے لیے حضرت با یزید بسطامی ؒ کے مزار پر سالوں سال حاضر ہو تے رہے اُن سے آپ کا خصوصی روحانی تعلق تھا ۔ 5 عزت شہرت اور اقتدار کا سورج جب بھی کسی مٹی کے بنے انسان پر طلوع ہو تا ہے تو مشتِ غبار حضرت انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ کر ہ ارض پر اس سے زیا دہ خو ش قسمت طاقتور اور عقل و شعور کا اور کوئی مالک نہیں ہے اور پھر اِس نشے میں غرق وہ ناکامی کمزوری یا شکست بھو ل جاتاہے لیکن جب قدرت ایسے انسان کو ٹھو کر لگا تی ہے اوقات یا د دلاتی ہے تو پھر یہ اقتدار کے k2سے نیچے بھی اُترتا ہے اور دائیں بائیں بھی دیکھتا ہے ایسا ہی ایک کمزور لمحہ تاریخ انسانی کے عظیم فاتح سلطان محمود غزنوی پر بھی آیا محمود غزنوی جو سمجھتا تھا کہ پوری کائنات اُسی کے دم سے دھڑکتی ہے اُس کی اپنی نبض ڈوبنا شروع ہو گئی اور پھر سلطا ن محمو د غزنوی جیسا عظیم پر جلال فاتح ایک خاک نشین درویش کے در پر سوالی بن کے کھڑا تھا ۔ سلطان محمود ہندوستان پر کئی کامیاب حملے کر چکا تھا لیکن ایک شہر میں آکر فتح اُس سے روٹھ چکی تھی ناکامی بار بار اُس کامنہ چڑا رہی تھی کئی کوششوں کے با وجود سومنات کی بت شکنی کر نے میں ناکام رہا تھا ناکامی کے بعد اُس نے امید بھری نظروں سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا سہا رے ڈھونڈنا شروع کر دیئے ۔ مشکل کے اس وقت میں اسے ایک صاحب کرامت درویش کا پتہ چلا جس کی دعائیں با رگاہ الٰہی میں قبول ہو تی تھیں لیکن با دشاہ وہاں جانا تو ہین سمجھ رہا تھا اِ س لیے اُس نے سوچا پہلے درویش کی ولا یت کو آزمایا جا ئے اگر وہ اس آزمائش کی کسو ٹی پر پورا اُتر ے تو پھر اُس سے مدد ما نگی جائے اب سلطان نے اپنے خاص غلام ایاز کو بلا یا اور کہا میں ایک صاحب کرامت بزرگ سے ملنا چاہتا ہوں لوگوں کے بقول اُس کا دوسرا ثانی کر ہ ارض پر موجود نہیں ہے لیکن میں اُس سے ملاقا ت سے پہلے اُس کے روحا نی کمالات اور مقام کا امتحان لینا چاہتا ہوںاِس کے لیے تمام انتظامات تم کرو گے یہ تمام خفیہ طو رپر ہو نگے خدام اور کنیزوں کو ساتھ لیا جائے گا ہم اُس کی درگا ہ سے کچھ دور قیام فرمائیں گے ایاز نے سلطان کے حکم کی تعمیل شروع کر دی اب سلطان کنیزوں غلاموں اور ایاز کے ساتھ اُس درویش کی طرف روانہ ہوا اور قریب جاکر خیمے لگا دئیے‘ خیمے لگ گئے تو سلطان نے درویش کی طرف اپنے چند آدمی روانہ کئے اور انہیں یہ پیغام بھجوایا ‘خدا کا فرمان ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اُس کے رسولوں کی اطاعت کرو اُس کے بعد حاکم وقت کی اطاعت کرو پھر میرا سلام دینا اور کہنا سلطا ن محمود غزنوی نے آپ کو یاد کیا ہے ۔ درویش نے جب با دشاہ کا پیغام سنا تو ادائے بے نیازی سے فرمایا مجھے اللہ نے با دشاہ کی آمد کی اطلاع پہلے ہی دے دی ہے دوسری با ت اُس کے پیغام کی ہے تو میں اللہ کی اطاعت میں اس قدر گم ہوں کہ مجھے کسی اور کی اطاعت کا ہوش ہی نہیں ہے اِن حالات میں امیر کی اطاعت کی پرواہ بھی نہیں ہے اِس لیے با دشاہ کو ضرورت ہے تو وہ خو د فرش نشین کے پاس آجائے سلطا ن محمود غزنوی نے جب یہ پیغام سنا تو برملا پکا ر اُٹھا یہ واقعی کوئی صاحب کرامت کامل بزرگ ہیں غلام ایاز نے ادب سے کہا شہنشاہ حضور میں تو پہلے ہی فکر مند تھا کہ کہیں یہ بزرگ آپ کے پاس آنے سے انکار ہی نہ کر دیں کیو نکہ میرا دل گوا ہی دے رہا تھا کہ یہ کو ئی اللہ کے حقیقی بے نیاز بزرگ ہیں ایاز کی با ت سن کر محمود نے فیصلہ کیا کہ درویش وقت کی با رگا ہ میں بنفس نفیس جایا جا ئے اب بادشاہ نے ایاز کو حکم دیا کہ میری جگہ وہ شاہی لبا س پہن لے اور خود ایاز کا غلامانہ لبا س محمود نے پہن لیا اور صحت مند کنیزوں کو مردانہ لباس پہنا دیا گیا اور سب کو حکم جا ری کیا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں اور ایازکو تا کید کی کہ وہ فقیر کے حضور بطو ربا دشاہ پیش ہو گا اور محمود بطور غلام پیش ہو گا بادشاہ ابھی بھی بزرگ کی ولا یت آزمانے کے چکر میں تھا اب جب ایاز اور محمود درویش کے دربار میں پہنچے تو ایاز نے بادشاہوں کی طرح سلام کیا اب درویش نے ایاز کے سلام کا جواب تو دیا لیکن اصل تو جہ محمود کو دی ایاز کو تو جہ نہ دی زیا دہ گفتگو محمود سے کی آخر محمود نے کہا حضرت آپ ہما رے با دشاہ پر تو جہ کیوں نہیں دے رہے تو درویش نے دھیمے دلنشیں لہجے میں فرمایا میں تیرے بادشاہ سے نہیں تجھ سے با ت کر نا چاہتا ہوں محمود نے حیرت سے پو چھا حضرت کیوں ؟ تو درویش نے گہری نظروں اور تبسم بھرے لہجے میں کہا اِس لیے کہ تمہا را بادشاہ چند لمحوںکا ہے اور اُسے مجھ سے کچھ دریا فت بھی نہیں کر نا لہٰذا میں اس سے بات کیا کروں محمو د حیرت سے بولا حضور میں آپ کی با ت سمجھا نہیں تو درویش کے لہجے میں اب ہلکا سا جلال آگیا اورکہا فریب کا جال تو بن سکتے ہو مگر میری آسان بات نہیں سمجھ سکتے تم نے میرا امتحان لینے کے لیے اپنے غلام کو شاہی لباس پہنا کر بادشاہ بنایا ہوا ہے تا کہ تم مجھے اپنے سامنیشرمندہ کرسکے لیکن یہ تمہا ری حما قت ہے تو ایسے ہزاروں شاطرانہ جال بن لے میرا خدا مجھے سر خرو ہی کر ے گا با دشاہ اپنے ہی عرق ندامت میں ڈوب گیا اور شرمندہ معذرت خوا ہانہ لہجے میں بو لا میں نے جال ضرور بچھا یا مگر آپ جیسا شہبا ز میرے جال میں نہیں پھنس سکا پھر درویش نے پر جلال آواز میں کہا اِ ن غیر محرم عورتوں کو با ہر نکال دو تا کہ تمہارے ساتھ کو ئی بات کی جا سکے محمو د نے شرمندہ ہو کر کنیزوں کو با ہر بھیج دیا تو درویش نے دعا دی اور کہا خدا تمہا ری عاقبت سنوار دے محمود نے آپ کی خدمت میں اشرفیوں کی بو ری پیش کی تو فقیر نے کہا پہلے تم میر ی یہ خشک روٹی کھا ئو بادشاہ نے روٹی منہ میں ڈالی مگر کوشش کے با وجود اُسے نگل نہ سکا معذرت کی کہ روٹی مجھ سے نگلی نہیں جا رہی اب درویش نے فرمایا جس طرح میری خشک روٹی تم نہیں نگل سکتے اِسی طرح تمہا ری اشرفیاں میرے حلق میں پھنس جا ئیں گی لہٰذا اِن کو واپس لے جائو با دشاہ نے کہیں زیا دہ منت سما جت کی لیکن بے نیاز درویش نے انکار کیا پھر با دشاہ نے دعا کی درخواست کی کہ دعا کر یں خدا مجھے سومنات کا قلعہ فتح کرنا نصیب کر ے درویش با کمال نے دعا فرمائی اور اپناپیراہن با دشاہ کو دیا اور پر جلال لہجے میں کہا اب جب تم حملے کی غرض سے ہندوستان جائو تو نماز کے بعد میرا یہ پیراہن ہاتھ میں پکڑ کر خدا کی با رگاہ میں دعا کر نا خالق کائنات تمہیں عظیم الشان فتح سے ہمکنا ر کر ے گا اور پھر ایسا ہی ہوا محمو دہندوستان گیا تو درویش خدا کے پیرا ہن کی بدولت فاتح سومنا ت بن کر لوٹا اور آنے کے فورا بعد درویش کی با رگاہ میں حاضر ہو کر شکریہ ادا کیا بہت سارے تحائف اور اشرفیاں پیش کیں اور درخواست کی کہ کو ئی حکم ہو تو میں بجا لا نے میں خو شی محسوس کروں گا سلطان نے فقیر کی خانقاہ کی بہت زیا دہ تعریف کی تو بے نیاز فقیر نے فرمایا محمود تم اتنی وسیع و عریض سلطنت کے اکلوتے وارث ہو دنیا جہاں کی نعمتیں تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو چکی ہیں اِس کے باوجود تمہا ری ہو س کم نہیں ہو رہی وسیع و عریض سلطنت کے ہو تے ہو ئے تم پھر بھی درویش کی جھو نپڑی پر نظر رکھتے ہو با دشاہ شرمندہ ہوا اور رخصت ہو نے لگا تو درویش اُس کے احترام میں کھڑے ہو گئے محمود بو لا حضرت جب میں پہلے حاضر ہوا تو آپ نے یہ عزت مجھے بالکل بھی نہیں دی اب کیا وجہ ہے تو آپ نے فرمایا پہلے تمہا رے ساتھ شاہی غروراور جلال تھا اور تم میرا امتحان لینے آئے تھے جبکہ اِس بار تمہارا ظاہر و با طن عاجزی انکساری سے بھرا ہوا ہے اِس لیے اب تمہا ری تعظیم لا زم ہو گئی ہے بادشاہ سلطان محمود غزنوی جس درویش کے در پر دامن مراد پھیلا ئے حاضر ہوا وہ اپنے وقت کے مشہور و معروف حضرت صاحب ولایت کرامت بزرگ حضرت ابو الحسن خر قانی ؒ تھے جو روحانی فیض کے لیے حضرت با یزید بسطامی ؒ کے مزار پر سالوں سال حاضر ہو تے رہے اُن سے آپ کا خصوصی روحانی تعلق تھا ۔ (

Saturday, February 6, 2021

بھکاری عورت

هﻢ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﻨﮕﮯریسٹو ﺭﯾﻨﭧ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎﮐﮭﺎ ﭼﮑﮯ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﺎﻭﺍﻓﺮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﯾﺎ ﺩﻭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯﻟﺌﮯﮐﺎﻓﯽ ﮨﻮ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯﺑﺮﺗﻦ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﻭﯾﭩﺮﺳﮯﻭﺍﻓﺮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﮐﮩﺎ ''''’ﺍﺳﮯ ﭘﯿﮏ ﮐﺮﺩﻭ''" ﻭﯾﭩﺮ ﻧﮯ ﻃﻨﺰﯾﮧﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟﮐﮩﺎ’ﺍﺱ ﮐﻮ‘؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯﭘُﺮﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ، ﺟﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯﻣﯿﺮﯼ ﺍﺱﺣﺮﮐﺖ ﭘﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻘﻮﯾﺖ ﺩﮦ ﻓﻘﺮﮦ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻥﭘﺮﻭﺍﮦ ﮐﺮﺗﺎ ہے ﺑﻞ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ کے ﺑﻌﺪ،،،،،، ﻭﯾﭩﺮ ﻧﮯ ﭘﯿﮏ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮈﺑﮧ ﻣﯿﺰ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ، ﺳﺐ ﺍﯾﮏﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯﮐﻮﻥ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ؟؟؟؟؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯﮈﺑﮧ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﮐﮩﺎ’ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﻟﺌﮯ ﮨﻮﮞ‘۔ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ایک ﭼﻮﮎ ﺳﮯﺫﺭﺍ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺩﺭﯼ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭﭘﺎﺱ ﮨﯽ ﺍﺱﮐﺎﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﮐﮭﯿﻞﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯﭘﺎﺱ ﮔﺎﮌﯼ ﺭﻭﮐﯽ اﻭﺭ ﮈﯾﺶ ﺑﻮﺭﮈ ﭘﺮ ﭘﮍﺍﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮈﺑﮧ ﺳﺎﺗﮫﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﺩﮮ ﮐﺮ،ﺷﯿﺸﮧ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﮐﮩﺎ،،،، ﯾﮧ ﺍﺳﮯ ﭘﮑﮍﺍ ﺩﯾﮟ!!! ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﮑﮍﺍﻧﮯ ﮐﮯﻟﺌﮯﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﺗﻮﺍُﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﻣﯽﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯﭘﮑﮍ ﮐﺮﺍﺱﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯﮐﮩﺎ،،،، ﺍﻟﻠﮧ ﺑﮭﻼ ﮐﺮﮮ!!!! ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﮐﮯﺑﮭﻮﮐﮯ ﺗﮭﮯ، ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﻟﮯﺍٓﺗﮯ ﻭﮦ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯﭘﯿﮑﭧﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﻟﮕﯽ،،،، ﻣﯿﮟ ﻧﮯﻣﮍ ﮐﺮﺳﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ (ﺍﺏﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺟﻮﻣﯿﺮﯼ ﺗﮭﯽ) ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ۔’ﮨﻢ ﻭﯾﭩﺮ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟﺍﻣﯿﺮ ﻧﻈﺮ ﺍٓﻧﮯ ﮐﯽﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼﻧﯿﮑﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ،،،، ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﻟﻠﮧﮐﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮨﯿﮟ ﻭﯾﭩﺮﯾﺎﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﻟﻮﮒ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻋﻤﻞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺣﺼّﮧ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺭﺍﺋﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﻮﺭﮮ ﻋﻤﻞ ﺳﮯﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﺰﺍ ﯾﺎ ﺟﺰﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ،،،،،، اللہ ہم سب کو غریبوں کی مدد کرنے کی توفیق دے،،،آمین

حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کا ایمان افروز واقعہ

 ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ

ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺍﺩﮨﻢ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻓﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ۔

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺍﺩﮬﻢ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: پانچ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﻮ۔ ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﺮﻭ۔ ﺗﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﯽ۔

ﺍﻭﻝ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﺭﺯﻕ ﻣﺖ ﮐﮭﺎ۔

ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﮍﯼ ﻣﺸﮑﻞ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺯﺍﻕ ﺗﻮ ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ! ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﺐ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺭﺯﻕ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮐﺮﮮ

ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣُﻠﮏ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﻭ۔ 

ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺑﻮﻻ ﺗﻤﺎﻡ ﻣُﻠﮏ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﻧﮑﻠﻮﮞ۔

ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﻮ۔

ﺗﯿﺴﺮﯼ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﺮ ﺟﮩﺎﮞ ﻭﮦ ﺗﺠﮭﮯ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﮯ۔

ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﺐ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﺯﻕ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﮮ۔

ﭼﻮﺗﮭﮯ

ﯾﮧ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﻠﮏ ﺍﻟﻤﻮﺕ ﺗﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﮯ ﺩﮮ۔

ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺑﻮﻻ ﻭﮦ ﺑﮭﻼ ﻣﮩﻠﺖ ﮐﺐ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ 

ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮﯾﮧ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮ ﻟﮯ۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﻮ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﺳﻤﺠﮫ،

ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﺣﮑﻢ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺯﺥ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﺅ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ، 

ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ 

ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺏ ﺧﻮﺩ ﺳﻮﭺ ﻟﮯ ﮐﯿﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﺗﺠﮭﮯ ﺯﯾﺒﺎ ﮨﮯ۔

ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺍﺩﮬﻢ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺗﺎﺋﺐ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔

Badshah Aur Ghulam | sabaq amoz Qissa | بادشاہ اور غلام

 بادشاہ اور غلام


بادشاہ سلامت کا دربار لگا ہے ۔ حاجت مند قطار اندرقطار پیش ہو رہے ہیں ۔ بادشاہ ہر ایک کی درخواست پر حاجت مند کی خواہش کے مطابق حکم صادر کررہا ہے اور ڈھیروں دعا سمیٹ رہا ہے۔ اتنے میں ایک سوداگر حاضر ہوتا ہے۔ وہ بادشاہ کی وقار اور خوشی و خوشنودی کی خاطر چند غلام اپنت ساتھ لایا ہے تاکہ بادشاہ کی خدمت گزاری کے لیے اُنہیں پیش کر سکے۔ وہ بادشاہ سے درخواست پزیر ہوتا ہے:

           " بادشاہ سلامت!  رب الرحمان ورحیم آپکا وقار واختیار بلند وبالا کرے! میں چند غلام آپ کے حضور پیش کرنے کے لیے لایا ہوں آپ انہیں شرف بازیابی بخشے اور جو غلام آپ پسند فرمائیں اپنی خدمت و نیازمندی کے لیے اپنے پاس رکھ لیں۔میں جانتا ہوں کہ آپ کے پاس غلاموں کی کمی نہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے لیے بڑی سعادت مندی اعزاز و فخر ہوگا ۔اگر میرا پیش کردہ غلام آپکے احکامات کی بجاآوری کے لیے آپ کے دربارِ شاہی میں مامور ہوگا۔"

            بادشاہ اس سوداگر کی درخواست پر زیر لب مسکراتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ:

             " ہر ایک غلام کو باری باری میری خدمت میں پیش کیا جائے ۔ میں ان سے سوالات کروں گا اور جس کے جوابات سے متاثر ہوا ان کےگئے نے دربار میں رکھ لوں گا"

ہر ایک کو بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا،  بادشاہ نے ہر ایک سے سوالات کیے لیکن کسی کی جواب سے مطمئن نہ ہوا  ۔ بادشاہ نے سوداگر سے کہاکہ مجھے ان میں سے کوئی بھی مجھے مطمئن نہ کرسکا اس لیے اگر کوئی اور ہے تو بھیج دو اگر نہیں تو پھر انکو بھی لے جاؤ۔ بادشاہ سلامت ایک اور غلام باہر موجود تو ہے اور وہ ضد کرکے میرے ساتھ یہاں تک آیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس  اعلیٰ وارفع دربار شاہی کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے میں نے اسے اپکی خدمت میں پیش نہیں کیا،  بادشاہ زوردار لہجے میں سوداگر سے کہتا ہے۔ 

        "تم نے یہ کیسے فیصلہ کر لیا کہ وہ دربار شاہی کے قابل نہیں؟؟؟  انہیں میری خدمت میں فوراً پیش کرو۔ غلام کو بادشاہ کے روبرو پیش کیا گیا،  غلام نے سرجھکائے سلام کیا۔ بادشاہ نے دوسروں کی طرح اس سے بھی نام پوچھا،  غلام نے جواب دیا بادشاہ سلامت آپ کو غلام کو جس نام سے چاہیں یاد فرما لیں ، غلام تو غلام ہی رہتا ہے اس کا کوئی اور نام کیا ہوسکتا ہے ۔"

بادشاہ پوچھتا ہے اچھا بتاؤ کھانے میں تم کو کیا پسند ہے؟ غلام جواب دیتا ہے " مالک کی مرضی جو کھلا دے  وہی میری پسندیدہ غزا ہوگی۔"

بادشاہ نے آخری سوال پوچھا " تمھاری کیا خواہش ہے فوراً پوری کی جائیگی ہم تمھارے جوابات سے خوش ہوئے۔"


"  غلام نے کہا بادشاہ سلامت میں ایک غریب اور مفہوم حال غلام ہوں نہ اختیار اپنا نہ ارادہ اپنا۔ اس لیے مجھے کوئی حق نہیں کہ کسی خواہش اور آرزو کو دل میں جگہ دوں۔ میری کوئی بھی طلب نہیں۔"


غلام کے جوابات سن کر بادشاہ نے ایک نعرہ تکبیر بلند کیا اور بیہوش ہوگئے۔

تمام درباری جمع ہوگئے افراتفری پھیلی ہوئی تھی،  حکیم طبیب بلائے گئے۔ ہر شخص فکرمند تھا۔ اور وہ سوداگر جو اس غلام  کو لایا تھا ازحد متفکر ہوکر ایک سائیڈ پر بیٹھا تھا۔اور دل ہی دل میں سوچتا تھا کہ میرا اندازہ درست تھا کہ یہ غلام دربار شاہی کے قابل نہیں اور اب اس غلام کا انجام کیا ہوگا؟؟؟؟ 


تھوڑی دیر بعد بادشاہ ہوش میں آتا ہے اور آنکھیں کھولتا ہے تمام درباریوں کی جان میں جان آجاتی ہے مگر بادشاہ سلامت پہلی نظر جس شخص پر ڈالتا ہے وہ وہی غلام ہے ۔ بادشاہ دیکھتا ہے کہ غلام اسی طرح کھڑا تھا نہ اس کی چہرے پر کوئی اداسی نہ پریشانی۔

اب بادشاہ تھوڑے توقف کے بعد لب کشا ہوتا ہے اور خودکلامی کرتے ہوئے قابل سماعت آواز میں کہتا ہے :


" اے ابراہیم ادھم افسوس ہے تم پر بلکہ افسوس صد ہزار افسوس ہے تجھ پر ! تو بھی اپنے رب کی غلامی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن تیرا مقام اس غلام سے بھی کم تر ہے ۔حالانکہ رب قادر وقدیر نے تجھے بادشاہت جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ تجھ سے تو غلام بدرجہا بہتر ہے کہ جس نے اپنے سارے اختیارات اپنے مالک کے سپرد کر دئیے اور تو اپنے اختیارات اپنے پاس رکھتا ہے۔"

اگرچہ بادشاہ سلامت ، بلخ کے سلطان اور عظیم المرتبت حکمران ابراہیم اودھم نے اس غلام کو اپنے مقربین میں شامل کر لیا تاہم اس کے دل و دماغ پر اس غلام کے جوابات کا جو اثر ہوا وہ ناقابل بیان تھا۔