Tuesday, February 9, 2021
سلطان محمود غزنوی اور درویش
سلطان محمود غزنوی اور درویش
عزت شہرت اور اقتدار کا سورج جب بھی کسی مٹی کے بنے انسان پر طلوع ہو تا ہے تو مشتِ غبار حضرت انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ کر ہ ارض پر اس سے زیا دہ خو ش قسمت طاقتور اور عقل و شعور کا اور کوئی مالک نہیں ہے اور پھر اِس نشے میں غرق وہ ناکامی کمزوری یا شکست بھو ل جاتاہے لیکن جب قدرت ایسے انسان کو ٹھو کر لگا تی ہے اوقات یا د دلاتی ہے تو پھر یہ اقتدار کے k2سے نیچے بھی اُترتا ہے اور دائیں بائیں بھی دیکھتا ہے ایسا ہی ایک کمزور لمحہ تاریخ انسانی کے عظیم فاتح سلطان محمود غزنوی پر بھی آیا محمود غزنوی جو سمجھتا تھا کہ پوری کائنات اُسی کے دم سے دھڑکتی ہے اُس کی اپنی نبض ڈوبنا شروع ہو گئی اور پھر سلطا ن محمو د غزنوی جیسا عظیم پر جلال فاتح ایک خاک نشین درویش کے در پر سوالی بن کے کھڑا تھا ۔ سلطان محمود ہندوستان پر کئی کامیاب حملے کر چکا تھا لیکن ایک شہر میں آکر فتح اُس سے روٹھ چکی تھی ناکامی بار بار اُس کامنہ چڑا رہی تھی کئی کوششوں کے با وجود سومنات کی بت شکنی کر نے میں ناکام رہا تھا ناکامی کے بعد اُس نے امید بھری نظروں سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا سہا رے ڈھونڈنا شروع کر دیئے ۔ مشکل کے اس وقت میں اسے ایک صاحب کرامت درویش کا پتہ چلا جس کی دعائیں با رگاہ الٰہی میں قبول ہو تی تھیں لیکن با دشاہ وہاں جانا تو ہین سمجھ رہا تھا اِ س لیے اُس نے سوچا پہلے درویش کی ولا یت کو آزمایا جا ئے اگر وہ اس آزمائش کی کسو ٹی پر پورا اُتر ے تو پھر اُس سے مدد ما نگی جائے اب سلطان نے اپنے خاص غلام ایاز کو بلا یا اور کہا میں ایک صاحب کرامت بزرگ سے ملنا چاہتا ہوں لوگوں کے بقول اُس کا دوسرا ثانی کر ہ ارض پر موجود نہیں ہے لیکن میں اُس سے ملاقا ت سے پہلے اُس کے روحا نی کمالات اور مقام کا امتحان لینا چاہتا ہوںاِس کے لیے تمام انتظامات تم کرو گے یہ تمام خفیہ طو رپر ہو نگے خدام اور کنیزوں کو ساتھ لیا جائے گا ہم اُس کی درگا ہ سے کچھ دور قیام فرمائیں گے ایاز نے سلطان کے حکم کی تعمیل شروع کر دی اب سلطان کنیزوں غلاموں اور ایاز کے ساتھ اُس درویش کی طرف روانہ ہوا اور قریب جاکر خیمے لگا دئیے‘ خیمے لگ گئے تو سلطان نے درویش کی طرف اپنے چند آدمی روانہ کئے اور انہیں یہ پیغام بھجوایا ‘خدا کا فرمان ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اُس کے رسولوں کی اطاعت کرو اُس کے بعد حاکم وقت کی اطاعت کرو پھر میرا سلام دینا اور کہنا سلطا ن محمود غزنوی نے آپ کو یاد کیا ہے ۔ درویش نے جب با دشاہ کا پیغام سنا تو ادائے بے نیازی سے فرمایا مجھے اللہ نے با دشاہ کی آمد کی اطلاع پہلے ہی دے دی ہے دوسری با ت اُس کے پیغام کی ہے تو میں اللہ کی اطاعت میں اس قدر گم ہوں کہ مجھے کسی اور کی اطاعت کا ہوش ہی نہیں ہے اِن حالات میں امیر کی اطاعت کی پرواہ بھی نہیں ہے اِس لیے با دشاہ کو ضرورت ہے تو وہ خو د فرش نشین کے پاس آجائے سلطا ن محمود غزنوی نے جب یہ پیغام سنا تو برملا پکا ر اُٹھا یہ واقعی کوئی صاحب کرامت کامل بزرگ ہیں غلام ایاز نے ادب سے کہا شہنشاہ حضور میں تو پہلے ہی فکر مند تھا کہ کہیں یہ بزرگ آپ کے پاس آنے سے انکار ہی نہ کر دیں کیو نکہ میرا دل گوا ہی دے رہا تھا کہ یہ کو ئی اللہ کے حقیقی بے نیاز بزرگ ہیں ایاز کی با ت سن کر محمود نے فیصلہ کیا کہ درویش وقت کی با رگا ہ میں بنفس نفیس جایا جا ئے اب بادشاہ نے ایاز کو حکم دیا کہ میری جگہ وہ شاہی لبا س پہن لے اور خود ایاز کا غلامانہ لبا س محمود نے پہن لیا اور صحت مند کنیزوں کو مردانہ لباس پہنا دیا گیا اور سب کو حکم جا ری کیا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں اور ایازکو تا کید کی کہ وہ فقیر کے حضور بطو ربا دشاہ پیش ہو گا اور محمود بطور غلام پیش ہو گا بادشاہ ابھی بھی بزرگ کی ولا یت آزمانے کے چکر میں تھا اب جب ایاز اور محمود درویش کے دربار میں پہنچے تو ایاز نے بادشاہوں کی طرح سلام کیا اب درویش نے ایاز کے سلام کا جواب تو دیا لیکن اصل تو جہ محمود کو دی ایاز کو تو جہ نہ دی زیا دہ گفتگو محمود سے کی آخر محمود نے کہا حضرت آپ ہما رے با دشاہ پر تو جہ کیوں نہیں دے رہے تو درویش نے دھیمے دلنشیں لہجے میں فرمایا میں تیرے بادشاہ سے نہیں تجھ سے با ت کر نا چاہتا ہوں محمود نے حیرت سے پو چھا حضرت کیوں ؟ تو درویش نے گہری نظروں اور تبسم بھرے لہجے میں کہا اِس لیے کہ تمہا را بادشاہ چند لمحوںکا ہے اور اُسے مجھ سے کچھ دریا فت بھی نہیں کر نا لہٰذا میں اس سے بات کیا کروں محمو د حیرت سے بولا حضور میں آپ کی با ت سمجھا نہیں تو درویش کے لہجے میں اب ہلکا سا جلال آگیا اورکہا فریب کا جال تو بن سکتے ہو مگر میری آسان بات نہیں سمجھ سکتے تم نے میرا امتحان لینے کے لیے اپنے غلام کو شاہی لباس پہنا کر بادشاہ بنایا ہوا ہے تا کہ تم مجھے اپنے سامنیشرمندہ کرسکے لیکن یہ تمہا ری حما قت ہے تو ایسے ہزاروں شاطرانہ جال بن لے میرا خدا مجھے سر خرو ہی کر ے گا با دشاہ اپنے ہی عرق ندامت میں ڈوب گیا اور شرمندہ معذرت خوا ہانہ لہجے میں بو لا میں نے جال ضرور بچھا یا مگر آپ جیسا شہبا ز میرے جال میں نہیں پھنس سکا پھر درویش نے پر جلال آواز میں کہا اِ ن غیر محرم عورتوں کو با ہر نکال دو تا کہ تمہارے ساتھ کو ئی بات کی جا سکے محمو د نے شرمندہ ہو کر کنیزوں کو با ہر بھیج دیا تو درویش نے دعا دی اور کہا خدا تمہا ری عاقبت سنوار دے محمود نے آپ کی خدمت میں اشرفیوں کی بو ری پیش کی تو فقیر نے کہا پہلے تم میر ی یہ خشک روٹی کھا ئو بادشاہ نے روٹی منہ میں ڈالی مگر کوشش کے با وجود اُسے نگل نہ سکا معذرت کی کہ روٹی مجھ سے نگلی نہیں جا رہی اب درویش نے فرمایا جس طرح میری خشک روٹی تم نہیں نگل سکتے اِسی طرح تمہا ری اشرفیاں میرے حلق میں پھنس جا ئیں گی لہٰذا اِن کو واپس لے جائو با دشاہ نے کہیں زیا دہ منت سما جت کی لیکن بے نیاز درویش نے انکار کیا پھر با دشاہ نے دعا کی درخواست کی کہ دعا کر یں خدا مجھے سومنات کا قلعہ فتح کرنا نصیب کر ے درویش با کمال نے دعا فرمائی اور اپناپیراہن با دشاہ کو دیا اور پر جلال لہجے میں کہا اب جب تم حملے کی غرض سے ہندوستان جائو تو نماز کے بعد میرا یہ پیراہن ہاتھ میں پکڑ کر خدا کی با رگاہ میں دعا کر نا خالق کائنات تمہیں عظیم الشان فتح سے ہمکنا ر کر ے گا اور پھر ایسا ہی ہوا محمو دہندوستان گیا تو درویش خدا کے پیرا ہن کی بدولت فاتح سومنا ت بن کر لوٹا اور آنے کے فورا بعد درویش کی با رگاہ میں حاضر ہو کر شکریہ ادا کیا بہت سارے تحائف اور اشرفیاں پیش کیں اور درخواست کی کہ کو ئی حکم ہو تو میں بجا لا نے میں خو شی محسوس کروں گا سلطان نے فقیر کی خانقاہ کی بہت زیا دہ تعریف کی تو بے نیاز فقیر نے فرمایا محمود تم اتنی وسیع و عریض سلطنت کے اکلوتے وارث ہو دنیا جہاں کی نعمتیں تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو چکی ہیں اِس کے باوجود تمہا ری ہو س کم نہیں ہو رہی وسیع و عریض سلطنت کے ہو تے ہو ئے تم پھر بھی درویش کی جھو نپڑی پر نظر رکھتے ہو با دشاہ شرمندہ ہوا اور رخصت ہو نے لگا تو درویش اُس کے احترام میں کھڑے ہو گئے محمود بو لا حضرت جب میں پہلے حاضر ہوا تو آپ نے یہ عزت مجھے بالکل بھی نہیں دی اب کیا وجہ ہے تو آپ نے فرمایا پہلے تمہا رے ساتھ شاہی غروراور جلال تھا اور تم میرا امتحان لینے آئے تھے جبکہ اِس بار تمہارا ظاہر و با طن عاجزی انکساری سے بھرا ہوا ہے اِس لیے اب تمہا ری تعظیم لا زم ہو گئی ہے بادشاہ سلطان محمود غزنوی جس درویش کے در پر دامن مراد پھیلا ئے حاضر ہوا وہ اپنے وقت کے مشہور و معروف حضرت صاحب ولایت کرامت بزرگ حضرت ابو الحسن خر قانی ؒ تھے جو روحانی فیض کے لیے حضرت با یزید بسطامی ؒ کے مزار پر سالوں سال حاضر ہو تے رہے اُن سے آپ کا خصوصی روحانی تعلق تھا ۔
5
عزت شہرت اور اقتدار کا سورج جب بھی کسی مٹی کے بنے انسان پر طلوع ہو تا ہے تو مشتِ غبار حضرت انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ کر ہ ارض پر اس سے زیا دہ خو ش قسمت طاقتور اور عقل و شعور کا اور کوئی مالک نہیں ہے اور پھر اِس نشے میں غرق وہ ناکامی کمزوری یا شکست بھو ل جاتاہے لیکن جب قدرت ایسے انسان کو ٹھو کر لگا تی ہے اوقات یا د دلاتی ہے تو پھر یہ اقتدار کے k2سے نیچے بھی اُترتا ہے اور دائیں بائیں بھی دیکھتا ہے ایسا ہی ایک کمزور لمحہ تاریخ انسانی کے عظیم فاتح سلطان محمود غزنوی پر بھی آیا محمود غزنوی جو سمجھتا تھا کہ پوری کائنات اُسی کے دم سے دھڑکتی ہے اُس کی اپنی نبض ڈوبنا شروع ہو گئی اور پھر سلطا ن محمو د غزنوی جیسا عظیم پر جلال فاتح ایک خاک نشین درویش کے در پر سوالی بن کے کھڑا تھا ۔ سلطان محمود ہندوستان پر کئی کامیاب حملے کر چکا تھا لیکن ایک شہر میں آکر فتح اُس سے روٹھ چکی تھی ناکامی بار بار اُس کامنہ چڑا رہی تھی کئی کوششوں کے با وجود سومنات کی بت شکنی کر نے میں ناکام رہا تھا ناکامی کے بعد اُس نے امید بھری نظروں سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا سہا رے ڈھونڈنا شروع کر دیئے ۔ مشکل کے اس وقت میں اسے ایک صاحب کرامت درویش کا پتہ چلا جس کی دعائیں با رگاہ الٰہی میں قبول ہو تی تھیں لیکن با دشاہ وہاں جانا تو ہین سمجھ رہا تھا اِ س لیے اُس نے سوچا پہلے درویش کی ولا یت کو آزمایا جا ئے اگر وہ اس آزمائش کی کسو ٹی پر پورا اُتر ے تو پھر اُس سے مدد ما نگی جائے اب سلطان نے اپنے خاص غلام ایاز کو بلا یا اور کہا میں ایک صاحب کرامت بزرگ سے ملنا چاہتا ہوں لوگوں کے بقول اُس کا دوسرا ثانی کر ہ ارض پر موجود نہیں ہے لیکن میں اُس سے ملاقا ت سے پہلے اُس کے روحا نی کمالات اور مقام کا امتحان لینا چاہتا ہوںاِس کے لیے تمام انتظامات تم کرو گے یہ تمام خفیہ طو رپر ہو نگے خدام اور کنیزوں کو ساتھ لیا جائے گا ہم اُس کی درگا ہ سے کچھ دور قیام فرمائیں گے ایاز نے سلطان کے حکم کی تعمیل شروع کر دی اب سلطان کنیزوں غلاموں اور ایاز کے ساتھ اُس درویش کی طرف روانہ ہوا اور قریب جاکر خیمے لگا دئیے‘ خیمے لگ گئے تو سلطان نے درویش کی طرف اپنے چند آدمی روانہ کئے اور انہیں یہ پیغام بھجوایا ‘خدا کا فرمان ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اُس کے رسولوں کی اطاعت کرو اُس کے بعد حاکم وقت کی اطاعت کرو پھر میرا سلام دینا اور کہنا سلطا ن محمود غزنوی نے آپ کو یاد کیا ہے ۔ درویش نے جب با دشاہ کا پیغام سنا تو ادائے بے نیازی سے فرمایا مجھے اللہ نے با دشاہ کی آمد کی اطلاع پہلے ہی دے دی ہے دوسری با ت اُس کے پیغام کی ہے تو میں اللہ کی اطاعت میں اس قدر گم ہوں کہ مجھے کسی اور کی اطاعت کا ہوش ہی نہیں ہے اِن حالات میں امیر کی اطاعت کی پرواہ بھی نہیں ہے اِس لیے با دشاہ کو ضرورت ہے تو وہ خو د فرش نشین کے پاس آجائے سلطا ن محمود غزنوی نے جب یہ پیغام سنا تو برملا پکا ر اُٹھا یہ واقعی کوئی صاحب کرامت کامل بزرگ ہیں غلام ایاز نے ادب سے کہا شہنشاہ حضور میں تو پہلے ہی فکر مند تھا کہ کہیں یہ بزرگ آپ کے پاس آنے سے انکار ہی نہ کر دیں کیو نکہ میرا دل گوا ہی دے رہا تھا کہ یہ کو ئی اللہ کے حقیقی بے نیاز بزرگ ہیں ایاز کی با ت سن کر محمود نے فیصلہ کیا کہ درویش وقت کی با رگا ہ میں بنفس نفیس جایا جا ئے اب بادشاہ نے ایاز کو حکم دیا کہ میری جگہ وہ شاہی لبا س پہن لے اور خود ایاز کا غلامانہ لبا س محمود نے پہن لیا اور صحت مند کنیزوں کو مردانہ لباس پہنا دیا گیا اور سب کو حکم جا ری کیا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں اور ایازکو تا کید کی کہ وہ فقیر کے حضور بطو ربا دشاہ پیش ہو گا اور محمود بطور غلام پیش ہو گا بادشاہ ابھی بھی بزرگ کی ولا یت آزمانے کے چکر میں تھا اب جب ایاز اور محمود درویش کے دربار میں پہنچے تو ایاز نے بادشاہوں کی طرح سلام کیا اب درویش نے ایاز کے سلام کا جواب تو دیا لیکن اصل تو جہ محمود کو دی ایاز کو تو جہ نہ دی زیا دہ گفتگو محمود سے کی آخر محمود نے کہا حضرت آپ ہما رے با دشاہ پر تو جہ کیوں نہیں دے رہے تو درویش نے دھیمے دلنشیں لہجے میں فرمایا میں تیرے بادشاہ سے نہیں تجھ سے با ت کر نا چاہتا ہوں محمود نے حیرت سے پو چھا حضرت کیوں ؟ تو درویش نے گہری نظروں اور تبسم بھرے لہجے میں کہا اِس لیے کہ تمہا را بادشاہ چند لمحوںکا ہے اور اُسے مجھ سے کچھ دریا فت بھی نہیں کر نا لہٰذا میں اس سے بات کیا کروں محمو د حیرت سے بولا حضور میں آپ کی با ت سمجھا نہیں تو درویش کے لہجے میں اب ہلکا سا جلال آگیا اورکہا فریب کا جال تو بن سکتے ہو مگر میری آسان بات نہیں سمجھ سکتے تم نے میرا امتحان لینے کے لیے اپنے غلام کو شاہی لباس پہنا کر بادشاہ بنایا ہوا ہے تا کہ تم مجھے اپنے سامنیشرمندہ کرسکے لیکن یہ تمہا ری حما قت ہے تو ایسے ہزاروں شاطرانہ جال بن لے میرا خدا مجھے سر خرو ہی کر ے گا با دشاہ اپنے ہی عرق ندامت میں ڈوب گیا اور شرمندہ معذرت خوا ہانہ لہجے میں بو لا میں نے جال ضرور بچھا یا مگر آپ جیسا شہبا ز میرے جال میں نہیں پھنس سکا پھر درویش نے پر جلال آواز میں کہا اِ ن غیر محرم عورتوں کو با ہر نکال دو تا کہ تمہارے ساتھ کو ئی بات کی جا سکے محمو د نے شرمندہ ہو کر کنیزوں کو با ہر بھیج دیا تو درویش نے دعا دی اور کہا خدا تمہا ری عاقبت سنوار دے محمود نے آپ کی خدمت میں اشرفیوں کی بو ری پیش کی تو فقیر نے کہا پہلے تم میر ی یہ خشک روٹی کھا ئو بادشاہ نے روٹی منہ میں ڈالی مگر کوشش کے با وجود اُسے نگل نہ سکا معذرت کی کہ روٹی مجھ سے نگلی نہیں جا رہی اب درویش نے فرمایا جس طرح میری خشک روٹی تم نہیں نگل سکتے اِسی طرح تمہا ری اشرفیاں میرے حلق میں پھنس جا ئیں گی لہٰذا اِن کو واپس لے جائو با دشاہ نے کہیں زیا دہ منت سما جت کی لیکن بے نیاز درویش نے انکار کیا پھر با دشاہ نے دعا کی درخواست کی کہ دعا کر یں خدا مجھے سومنات کا قلعہ فتح کرنا نصیب کر ے درویش با کمال نے دعا فرمائی اور اپناپیراہن با دشاہ کو دیا اور پر جلال لہجے میں کہا اب جب تم حملے کی غرض سے ہندوستان جائو تو نماز کے بعد میرا یہ پیراہن ہاتھ میں پکڑ کر خدا کی با رگاہ میں دعا کر نا خالق کائنات تمہیں عظیم الشان فتح سے ہمکنا ر کر ے گا اور پھر ایسا ہی ہوا محمو دہندوستان گیا تو درویش خدا کے پیرا ہن کی بدولت فاتح سومنا ت بن کر لوٹا اور آنے کے فورا بعد درویش کی با رگاہ میں حاضر ہو کر شکریہ ادا کیا بہت سارے تحائف اور اشرفیاں پیش کیں اور درخواست کی کہ کو ئی حکم ہو تو میں بجا لا نے میں خو شی محسوس کروں گا سلطان نے فقیر کی خانقاہ کی بہت زیا دہ تعریف کی تو بے نیاز فقیر نے فرمایا محمود تم اتنی وسیع و عریض سلطنت کے اکلوتے وارث ہو دنیا جہاں کی نعمتیں تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو چکی ہیں اِس کے باوجود تمہا ری ہو س کم نہیں ہو رہی وسیع و عریض سلطنت کے ہو تے ہو ئے تم پھر بھی درویش کی جھو نپڑی پر نظر رکھتے ہو با دشاہ شرمندہ ہوا اور رخصت ہو نے لگا تو درویش اُس کے احترام میں کھڑے ہو گئے محمود بو لا حضرت جب میں پہلے حاضر ہوا تو آپ نے یہ عزت مجھے بالکل بھی نہیں دی اب کیا وجہ ہے تو آپ نے فرمایا پہلے تمہا رے ساتھ شاہی غروراور جلال تھا اور تم میرا امتحان لینے آئے تھے جبکہ اِس بار تمہارا ظاہر و با طن عاجزی انکساری سے بھرا ہوا ہے اِس لیے اب تمہا ری تعظیم لا زم ہو گئی ہے بادشاہ سلطان محمود غزنوی جس درویش کے در پر دامن مراد پھیلا ئے حاضر ہوا وہ اپنے وقت کے مشہور و معروف حضرت صاحب ولایت کرامت بزرگ حضرت ابو الحسن خر قانی ؒ تھے جو روحانی فیض کے لیے حضرت با یزید بسطامی ؒ کے مزار پر سالوں سال حاضر ہو تے رہے اُن سے آپ کا خصوصی روحانی تعلق تھا ۔
(
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment