بادشاہ اور غلام
بادشاہ سلامت کا دربار لگا ہے ۔ حاجت مند قطار اندرقطار پیش ہو رہے ہیں ۔ بادشاہ ہر ایک کی درخواست پر حاجت مند کی خواہش کے مطابق حکم صادر کررہا ہے اور ڈھیروں دعا سمیٹ رہا ہے۔ اتنے میں ایک سوداگر حاضر ہوتا ہے۔ وہ بادشاہ کی وقار اور خوشی و خوشنودی کی خاطر چند غلام اپنت ساتھ لایا ہے تاکہ بادشاہ کی خدمت گزاری کے لیے اُنہیں پیش کر سکے۔ وہ بادشاہ سے درخواست پزیر ہوتا ہے:
" بادشاہ سلامت! رب الرحمان ورحیم آپکا وقار واختیار بلند وبالا کرے! میں چند غلام آپ کے حضور پیش کرنے کے لیے لایا ہوں آپ انہیں شرف بازیابی بخشے اور جو غلام آپ پسند فرمائیں اپنی خدمت و نیازمندی کے لیے اپنے پاس رکھ لیں۔میں جانتا ہوں کہ آپ کے پاس غلاموں کی کمی نہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے لیے بڑی سعادت مندی اعزاز و فخر ہوگا ۔اگر میرا پیش کردہ غلام آپکے احکامات کی بجاآوری کے لیے آپ کے دربارِ شاہی میں مامور ہوگا۔"
بادشاہ اس سوداگر کی درخواست پر زیر لب مسکراتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ:
" ہر ایک غلام کو باری باری میری خدمت میں پیش کیا جائے ۔ میں ان سے سوالات کروں گا اور جس کے جوابات سے متاثر ہوا ان کےگئے نے دربار میں رکھ لوں گا"
ہر ایک کو بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا، بادشاہ نے ہر ایک سے سوالات کیے لیکن کسی کی جواب سے مطمئن نہ ہوا ۔ بادشاہ نے سوداگر سے کہاکہ مجھے ان میں سے کوئی بھی مجھے مطمئن نہ کرسکا اس لیے اگر کوئی اور ہے تو بھیج دو اگر نہیں تو پھر انکو بھی لے جاؤ۔ بادشاہ سلامت ایک اور غلام باہر موجود تو ہے اور وہ ضد کرکے میرے ساتھ یہاں تک آیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس اعلیٰ وارفع دربار شاہی کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے میں نے اسے اپکی خدمت میں پیش نہیں کیا، بادشاہ زوردار لہجے میں سوداگر سے کہتا ہے۔
"تم نے یہ کیسے فیصلہ کر لیا کہ وہ دربار شاہی کے قابل نہیں؟؟؟ انہیں میری خدمت میں فوراً پیش کرو۔ غلام کو بادشاہ کے روبرو پیش کیا گیا، غلام نے سرجھکائے سلام کیا۔ بادشاہ نے دوسروں کی طرح اس سے بھی نام پوچھا، غلام نے جواب دیا بادشاہ سلامت آپ کو غلام کو جس نام سے چاہیں یاد فرما لیں ، غلام تو غلام ہی رہتا ہے اس کا کوئی اور نام کیا ہوسکتا ہے ۔"
بادشاہ پوچھتا ہے اچھا بتاؤ کھانے میں تم کو کیا پسند ہے؟ غلام جواب دیتا ہے " مالک کی مرضی جو کھلا دے وہی میری پسندیدہ غزا ہوگی۔"
بادشاہ نے آخری سوال پوچھا " تمھاری کیا خواہش ہے فوراً پوری کی جائیگی ہم تمھارے جوابات سے خوش ہوئے۔"
" غلام نے کہا بادشاہ سلامت میں ایک غریب اور مفہوم حال غلام ہوں نہ اختیار اپنا نہ ارادہ اپنا۔ اس لیے مجھے کوئی حق نہیں کہ کسی خواہش اور آرزو کو دل میں جگہ دوں۔ میری کوئی بھی طلب نہیں۔"
غلام کے جوابات سن کر بادشاہ نے ایک نعرہ تکبیر بلند کیا اور بیہوش ہوگئے۔
تمام درباری جمع ہوگئے افراتفری پھیلی ہوئی تھی، حکیم طبیب بلائے گئے۔ ہر شخص فکرمند تھا۔ اور وہ سوداگر جو اس غلام کو لایا تھا ازحد متفکر ہوکر ایک سائیڈ پر بیٹھا تھا۔اور دل ہی دل میں سوچتا تھا کہ میرا اندازہ درست تھا کہ یہ غلام دربار شاہی کے قابل نہیں اور اب اس غلام کا انجام کیا ہوگا؟؟؟؟
تھوڑی دیر بعد بادشاہ ہوش میں آتا ہے اور آنکھیں کھولتا ہے تمام درباریوں کی جان میں جان آجاتی ہے مگر بادشاہ سلامت پہلی نظر جس شخص پر ڈالتا ہے وہ وہی غلام ہے ۔ بادشاہ دیکھتا ہے کہ غلام اسی طرح کھڑا تھا نہ اس کی چہرے پر کوئی اداسی نہ پریشانی۔
اب بادشاہ تھوڑے توقف کے بعد لب کشا ہوتا ہے اور خودکلامی کرتے ہوئے قابل سماعت آواز میں کہتا ہے :
" اے ابراہیم ادھم افسوس ہے تم پر بلکہ افسوس صد ہزار افسوس ہے تجھ پر ! تو بھی اپنے رب کی غلامی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن تیرا مقام اس غلام سے بھی کم تر ہے ۔حالانکہ رب قادر وقدیر نے تجھے بادشاہت جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ تجھ سے تو غلام بدرجہا بہتر ہے کہ جس نے اپنے سارے اختیارات اپنے مالک کے سپرد کر دئیے اور تو اپنے اختیارات اپنے پاس رکھتا ہے۔"
اگرچہ بادشاہ سلامت ، بلخ کے سلطان اور عظیم المرتبت حکمران ابراہیم اودھم نے اس غلام کو اپنے مقربین میں شامل کر لیا تاہم اس کے دل و دماغ پر اس غلام کے جوابات کا جو اثر ہوا وہ ناقابل بیان تھا۔
No comments:
Post a Comment