Friday, February 28, 2020
Behlol Dana (R.A) Ki Badshah ko Nasehat | Heart Touching Story in urdu
حضرت بہلول داناؒ ہارون رشید کے زمانےمیں ایک مجزوب صفت بزرگ گزرے ہیں۔
Thursday, February 27, 2020
Lakar Hare ka Khoda Par Bhrosa | Aik Sabaq amoz kahani | Moral Urdu Stories |
کسی گاوں میں ایک لکڑہارا رہتا تھا جو اپنی گزر بسر کیلیئے جنگل سے لکڑیاں کاٹتا اور بازار جا کر بیچ آتا تھا اس کے ساتھ اس کا ایک شاگرد بھی تھا جس کا نام علی تھا۔ علی سارا دن اس کے ساتھ رہتا اور کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا۔ ہر روز کی طرح جب ایک دن وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہے تھے انہیں شیر کی آواز سنائی دی، جیسے ہی انہوں نے شیر کی آواز سنی وہ دونوں گھبرا کر جلدی سے ایک درخت پر چڑھ گئے۔ اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شیر جو منہ میں ایک ہرن کو اٹھائے ہوئے تھا قریب ایک درخت کی نیچے بیٹھ کر وہ اپنے شکار کیئے ہوئے ہرن کو کھانے لگا۔لکڑہارا اور اس کا شاگرد دم سادھے درخت سے چمٹے رہے اور شیر کو دیکھتے رہے۔کافی دیر بعد جب شیر کا پیٹ بھر گیا تو وہ بچے ہوئے ہرن کو وہیں چھوڑ کر چل دیا۔شیر کے چلے جانے کے بعد جیسے ہی لکڑہارا اور اس کا شاگرد نیچے اترنے لگے یہ دیکھ کر واپس اپنی جگہ پر دبک گئے کہ ایک زخمی لومڑی جو بڑی مشکل سے لنگڑا کر چل رہی تھی گھیسٹ گھیسٹ کر اس بچے ہوئے ہرن کی طرف بڑھنے لگی اور اس بچے ہوئے ہرن سے اپنا پیٹ بھرنے لگی ابھی لومڑی وہاں سے جانے ہی والی تھی کہ کچھ اور چھوٹے جانور وہاں پہنچ گئے پھر پرندے اس سے لطف اندوز ہوئے اور آخر میں کیڑوں مکوڑوں نے اس ہرن سے پیٹ بھرنا شروع کر دیااس تمام نظارے کو دیکھ کر لکڑہارے پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ بولا: "واہ میرے رب تو اپنی مخلوق کو کبھی بھی بھوکا نہیں چھوڑتا اور تو ان کا رزق انکے دروازے تک پہنچاتا ہے، ان کو بھی جو محنت کر کے کچھ کھانے کے قابل نہ ہوں۔اس واقعے کا لکڑہارے پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے اپنی کلہاڑی اپنے شاگرد کے حوالے کی اور بولا جب رب مخلوق کو کسی حال میں بھوکا نہیں چھوڑتا تو ہمیں اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت، کیوں نہ ہم بھی آرام سے بیٹھ جائیں اللہ پاک ہمارا مقرر کیا ہوا رزق ہم تک پہنچاتا رہے گا اور ہم اپنی کٹیا میں بیٹھ کر اس کی عبادت کرینگے، جب وہ اس زخمی لومڑی کے گھر اس کا رزق پہنچاتا ہے تو مجھے یقین ہے اللہ پاک ہمیں بھی بھوکا نہیں رکھے گا ۔اس کے بعد لکڑہارا اپنی کٹیا میں اللہ پاک کی عبادت میں مشغول ہو گیا اور دنیا سے لاتعلقی اختیار کر لی۔دوسری طرف اس کے شاگرد نے محنت کی راہ اپنا لی۔ اب وہ استاد کی جگہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بازار لے جانے لگا۔ پہلے ہی دن جب وہ لکڑیاں کاٹ کر بازار میں پہنچا تو ایک امیر شخص نے علی سے لکڑیاں خرید لیں اور علی کی توقع(امید) سے بڑھ کر اس کی اجرت ادا کی اور علی کو ہدایت کی کہ آئیندہ وہ جتنی بھی لکڑیاں کاٹے وہ میرے گودام میں پہنچا دیا کرے۔اسی دن علی خوش خوش اپنے استاد کے گھر پہنچا اور اپنی آمدن کا کچھ حصہ استاد کے منع کرنے کے باوجود اسے دے دیا۔ستاد بہت خوش ہوا اور بولا آج میرا پہلا دن تھا اور کس طرح میرے پیارے رب نے میرا رزق مجھ تک پہنچا دیا۔علی استاد کی بات سن کر بولا: "اب آپ فکر نا کریں میں اپنی آمدن کا ایک حصہ روزانہ آپ تک پہنچاتا رہونگا۔ایسے ہی دن گزرتے گئے اور شاگرد کی آمدن میں اضافہ ہونا لگا اور وہ نا صرف اس میں سے اپنے استاد کو حصہ دیتا رہا بلکہ دوسرے غرباء(غریبوں) کیلیئے بھی لنگر کا اہتمام شروع کر دیا۔دوسری طرف استاد نے اس کو غیبی امداد سمجھتے ہوئے مزید دنیا سے کناراکشی اختیار کر لی۔ایک دن علی اپنے استاد کے پاس پہنچا اور اسے اس بات کی دعوت سی کہ وہ اس کے ساتھ چل کر اس کے نئے گھر کا افتتاح کرے۔یہ سن کر استاد بہت خوش ہوا اور اسے دعائیں دیتے ہوئے اس کے ساتھ چل دیا۔گھر پہنچ کر جب استاد نے شاگرد کا شاندار گھر دیکھا تو وہ حیران رہ گیا اور بولا: "ارے! اتنا شاندار گھر اور یہ اتنا بڑا لنگر یہ کیسے ہوا؟علی بولا یہ سب آپ کی تعلیم اور آپکی کلہاڑی کی بدولت ہے جو اللہ پاک نے مجھے اتنا شاندار گھر عطا کیا۔گھر واپس آ کر استاد بہت پریشان ہوا اور خود کو کوستے ہوئے بڑبڑانے لگا میں نے آخر اسے اپنے کلہاڑی کیوں دی تھی اگر آج وہ کلہاڑی میرے پاس ہوتی تو یقینا میں بھی ایسا ہی ایک شاندار گھر بنا لیتا واہ رے قدرت! یہ تیرا کیسا انصاف ہے کہ اس کو تو تو نے اتنا امیر کر دیا اور مجھے اتنا غریب، مجھے ہر روز اس کی دی ہوئی تھوڑی سی خیرات پر گزارا کرنا پڑتا ہے جبکہ وہ جس نے کام بھی مجھ سے سیکھا آج اتنی ٹھاٹ سے زندگی گزار رہا ہے یہ یہ سرا سر نا انصافی ہے اور یہ کہتے ہوئے وہ رونے لگا، جب اس کی آہ و بکا بہت بڑھی تو غیب سے ایک آواز آئی " تم نے لومڑی سے متاثر ہو کر جو راہ چنی تھی وہ رزق تو تجھے بلاناغہ ملتا رہا لیکن تیرے اس شاگرد نے لومڑی کی بجائے شیر سے سبق لیا اس نے نا صرف اپنے کھانے کا انتظام کیا بلکہ تجھے اور تجھ جیسے بہت سارے افراد کیلیئے بھی رزق کی فراہمی کا سبب بنا رہا اب تو بتا تیری شکایت جائز ہے یا غلط؟اس کے بعد استاد نے پھر سے جنگل جا کر محنت سے لکڑیاں کاٹنی شروع کر دیں اور جلد ہی خوشحال ہو گیا۔دوستوں! اوپر والا ہاتھ ہمیشہ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ ایک مظبوط اور خوشحال مسلمان جو دوسروں کی مدد کرسکے زیادہ آجر کا مستحق ہے۔دوستوں! ہم سب کو شیر بن کر زندہ رہنا ہوگا جو خود بھی اپنے لیئے بھی شکار کرتا ہے اور دوسروں کے رزق کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔
Wednesday, February 26, 2020
Hazrat Ali (a.s) ka Murdon se kalam Farmana /Iman afroz waqia
حضرت سعید بن مسیبؓ فرماتے ہیں کہ ھم لوگ امیرالمومنین حضرت علیؑ کے ہمراہ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقع میں گئے تو آپ نے قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر با آواز بلند فرمایا ۔
اسلام علیکم و رحمتہ اللّٰہ ۔ کیا تم لوگ ہمیں اپنی خبریں سناؤ گے ۔ یا ھم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں ۔ اس کے جواب میں قبروں سے آواز آئی و علیک اسلام و رحمۃ اللہ ; اے امیرالمومنین ; آپ ھی ہمیں خبریں سنائیے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے گھروں میں کیا معاملات ہونے ؟
حضرتِ امیرالمومنینؑ نے ففرمایا کہ قبر والو ! تمھارے بعد تمہارے گھروں کی خبر یہ ھے کہ تمہاری بیویوں نے تمہارے بعد دوسرے مردوں سے نکاہ کرلیا تمہارے مال و دولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تتقسیمکر لیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہو کر در بدر پھر رہے ہیں ۔ اور تمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن سکوةاور چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
اس کے جواب میں قبروں سے ایک مردے کی دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمومنینؑ ! ہماری خبر یہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہو کر پھٹ چکے ہیں اور جو کچھ ھم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ھم نے یہاں پا لیا ہے اور جو کچھ ہم دنیا میں چھوڑ آئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ھی گھاٹا اٹھانا پڑا)
حجتہ علی العالمین ج 2 ص 863
Tuesday, February 25, 2020
Hazrat Ali as ki Danai ka waqia.
حضرت علیؑ کی دانائی کا واقعہ
ایک دفعہ حضرت علیؑ کی عدالت میں ایک دلچسپ مقدمہ پیش کیا گیا ۔ وہ دو اشخاص جو غالباََ مسافر تھے ۔
ایک کے پاس تین روٹیاں تھیں اور دوسرے پانچ روٹیاں تھیں دونون مل کر کھانے کو بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک اور مسافر وہاں آ گیا اور ان کیساتھ کھانے میں شریک ہوگیا ۔
جب کھانے سے فارغ ہوئے تو اس تیسرے آدمی نے آٹھ درھم اپنے کھانے کی قیمت ان دونوں کو ادا کی اور آگے بڑھ گیا ۔ جس شخص کی پانچ روٹیاں تھیں اس نے سیدھا حساب کیا فی روٹی کے حساب سے اس نے پانچ درھم خود رکھے اور تین درھم اس شخص کو دئے جس کی تین روٹیاں تھیں مگر وہ راضی نہ ھوا اور آدھی رقم کا مطالبہ کیا جھگڑا زیادہ بڑھا تو فیصلہ عدالت حیدری یعنی حضرت علیؑ کے سامنے پیش کیا گیا ۔
آپؑ نے اس دوسرے شخص کو نصیحت فرمائی کہ تمہارہ رفیق جو فیصلہ کر رہا ھے اسے قبول کر لو اس میں تمہارہ فائدہ ہے لیکن اس نےکہا کہ حق کیساتھ جو فیصلہ ہو گا مجھے منظور ہو گا ۔
آپؑ نے فرمایا اگر حق کی بات کرو گے تو تمہیں صرف ایک درھم ملے گا اور باقی سات درھم تمہارے رفیق کو ملیں گے ۔
اس عجیب فیصلے سے وہ حیران رہ گیا آپؑ فرمایا کہ تم تین آدمی تھے تمھارے پاس تین روٹیاں تھیں اور تمہارے رفیق کے پاس پانچ روٹیاں تم دونوں نے برابر کھائیں اور تیسرے آدمی کو بھی برابر کا حصہ دیا تمہاری تین روٹیوں کے تین تین حصے کئے جائیں تو نو (9) بنتے ہیں اور تمہارے رفیق کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اگر ان کے تین تین حصے بنائے جائیں تو وہ بنتے ہیں پنررہ (15) تمہارے (9) اور تمہارے رفیق کے (15) ٹکڑوں کو جمع کریں تو کل (24) ٹکڑے بنتے ہیں تم تینوں نے برابر ٹکڑے کھائے تو فی کس آٹھ ٹکڑے بنتے ہیںِ ۔
تم نے اپنے (9) ٹکڑوں میں آٹھ ٹکڑے خود کھائے اور ایک ٹکڑا تیسرے شخص کو دیا۔اور تمہارے رفیق نے اپنے (15) ٹکڑوں میں سے آٹھ ٹکڑے خود کھائے اور سات ٹکڑے اس شخص کو دیے اس لئے آٹھ درھم میں سے ایک کے تم اور سات کا تمہارہ رفیق مستحق ھے
پیارے دوستو ۔ اگر ھماری یہ پوسٹ آپکو پسند آئے تو لائک اور شیئر ضرور کیجیئے گا
Monday, February 24, 2020
Raja Aur Lambi kahani,Aik Dilchasp waqia,
راجہ اور لمبی کہانی
پرانے زمانے کی بات ہے ایک چھوٹی سی ریاست پر ایک راجہ حکومت کرتا تھا۔ وہ راجہ بہت سنکی تھا۔ ایک بار اسے سب سے لمبی کہانی سننے کی سنک سوار ہوئی۔
راجہ نے سارے شہر میں منادیی کر ادی کہ جو اسے سب سے لمبی کہانی سنائے گا اسے راجہ بنا دیا جائے گا لیکن جس کی کہانی لمبی نہ ہوئی اسے قید میں ڈال دیا جائے گا۔
یہ خبر سن کر دور دور سے کہانی کار آئے لیکن ان میں سے کوئی بھی راجہ کو خوش نہ کر پایا۔ ان کی کہانیاں لمبی تو ہوتی تھیں مگر راجہ سوچتا: "کہانی تو سن لی ہے اب میں جاگیر کیوں دوں اور پھر آہستہ آہستہ بہت سارے کہانی کار قید میں ڈال دیئے گئے۔
انہیں قیدی کہانی کاروں میں سے ایک بوڑھے کہانی کار کا جوان بیٹا جو کہ نہایت عقل مند تھا اسے اپنے باپ کا قید میں بند ہونا برداشت نہ ہوا اور وہ سمجھ گیا کہ راجہ جان بوجھ کر یہ سب کر رہا ہے، اس نے راجہ کو سبق سکھانے کی ٹھانی اور راج دربار جا پہنچا اور راجہ سے کہا: "مہاراج! میں بھی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔
راجہ نے اسے اجازت دیتے ہوئے کہا: "اگر تم لمبی کہانی نہ سنا پائے تو تمہیں بھی قید میں ڈال دیا جائے گا۔
نوجوان نے شرط منظور کر لی اور اپنی کہانی سنانا شروع کر دی، مہاراج! ایک کسان کا بہت بڑا کھیت تھا اس نے اس کھیت میں جوار بو رکھی تھی۔ پاس ہی کھیت کے کنارے ایک بڑے درخت پر ڈھیروں چڑیوں کا جھنڈ رہتا تھا۔
کسان جب بھی کھیت میں بیج بوتا چڑیاں سارا بیج نکال کر کھا لیتی تھیں۔ کسان نے چڑیوں سے تنگ آکر خود کھیت کی رکھوالی کرنے کا فیصلہ کیا۔
چڑیاں بھی کونسی ہار ماننے والی تھیں انہوں نے بھی ایک ترکیب بنائی اور پھر ایک چڑیا آئی کھیت میں سے بیج کا دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
پھر ایک چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
اور پھر ایک اور چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
پھر اور ایک چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
راجہ بولا: "پھر کیا ہوا؟
ہونا کیا تھا مہاراج! پھر ایک چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
پھر آگے کیا ہوا؟ راجہ اکتا کر بولا۔
مہاراج! چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
ٹھیک ہے بھئی اب آگے بھی تو بولو، راجہ مزید اکتا کر بولا۔
وہی تو کہہ رہا ہوں مہاراج! چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
اب راجہ پھررر پھررر سن کر بور ہونے لگا اور بولا: "ٹھیک ہے مان لیا ساری چڑیاں آئیں اور انہوں نے سارے دانے چگ لیئے اب آگے بھی تو بولو۔
ایسے کیسے چگ لیئے مہاراج! ایک ایک چڑیا آئے گی ایک ایک دانہ چگے گی سبھی دانے ختم ہونگے تبھی تو کہانی آگے چلے گی۔ پھر ایک چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
راجہ سمجھ گیا کہ آج سیر کو سوا سیر ملا ہے۔ راجہ نے سوچا یہ کہانی تو ختم ہی نہیں پو سکتی، اسے ڈند(سزا) کیسے دوں، اسے انعام دے کر ہی پیچھا چھڑانا بہتر ہے پھر راجہ نوجوان سے بولا: "اے نوجوان! پھررر پھررر بند کر، سچ مچ تیری کہانی سب سے لمبی ہے، تمہیں ریاست کی ساری جاگیر انعام میں دی جاتی ہے اور اس کے علاوہ ہم تمہیں منہ مانگا انعام بھی دینا چاہتے ہیں بولو تمہیں کیا چاہیئے؟
نوجوان بولا: "میرا انعام یہی ہے کہ آپ سبھی کہانی کاروں کو رہا کر دیں جنہیں آپ نے قیدی بن رکھا ہے، کسی کو بلاوجہ ستانا کوئی اچھی بات تھوڑی ہے۔ اس سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے اور ملک میں میں امن ختم ہو جاتا ہے میں چاہتا ہوں کی میرے ملک پر ایسی مصیبت کبھی نہ آئے۔
راجہ نے کچھ سوچا اور بولا: "بات تو تمہاری ٹھیک ہے پھر راجہ نے تمام قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
اس طرح اس نوجوان نے اپنے باپ کو ہی قید سے رہا نہیں کیا بلکہ اپنے سوجھ بوجھ سے راجہ کو صحیح راستے پر بھی لے آیا۔
اگر
یہ خبر سن کر دور دور سے کہانی کار آئے لیکن ان میں سے کوئی بھی راجہ کو خوش نہ کر پایا۔ ان کی کہانیاں لمبی تو ہوتی تھیں مگر راجہ سوچتا: "کہانی تو سن لی ہے اب میں جاگیر کیوں دوں اور پھر آہستہ آہستہ بہت سارے کہانی کار قید میں ڈال دیئے گئے۔
انہیں قیدی کہانی کاروں میں سے ایک بوڑھے کہانی کار کا جوان بیٹا جو کہ نہایت عقل مند تھا اسے اپنے باپ کا قید میں بند ہونا برداشت نہ ہوا اور وہ سمجھ گیا کہ راجہ جان بوجھ کر یہ سب کر رہا ہے، اس نے راجہ کو سبق سکھانے کی ٹھانی اور راج دربار جا پہنچا اور راجہ سے کہا: "مہاراج! میں بھی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔
راجہ نے اسے اجازت دیتے ہوئے کہا: "اگر تم لمبی کہانی نہ سنا پائے تو تمہیں بھی قید میں ڈال دیا جائے گا۔
نوجوان نے شرط منظور کر لی اور اپنی کہانی سنانا شروع کر دی، مہاراج! ایک کسان کا بہت بڑا کھیت تھا اس نے اس کھیت میں جوار بو رکھی تھی۔ پاس ہی کھیت کے کنارے ایک بڑے درخت پر ڈھیروں چڑیوں کا جھنڈ رہتا تھا۔
کسان جب بھی کھیت میں بیج بوتا چڑیاں سارا بیج نکال کر کھا لیتی تھیں۔ کسان نے چڑیوں سے تنگ آکر خود کھیت کی رکھوالی کرنے کا فیصلہ کیا۔
چڑیاں بھی کونسی ہار ماننے والی تھیں انہوں نے بھی ایک ترکیب بنائی اور پھر ایک چڑیا آئی کھیت میں سے بیج کا دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
پھر ایک چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
اور پھر ایک اور چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
پھر اور ایک چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
راجہ بولا: "پھر کیا ہوا؟
ہونا کیا تھا مہاراج! پھر ایک چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
پھر آگے کیا ہوا؟ راجہ اکتا کر بولا۔
مہاراج! چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
ٹھیک ہے بھئی اب آگے بھی تو بولو، راجہ مزید اکتا کر بولا۔
وہی تو کہہ رہا ہوں مہاراج! چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
اب راجہ پھررر پھررر سن کر بور ہونے لگا اور بولا: "ٹھیک ہے مان لیا ساری چڑیاں آئیں اور انہوں نے سارے دانے چگ لیئے اب آگے بھی تو بولو۔
ایسے کیسے چگ لیئے مہاراج! ایک ایک چڑیا آئے گی ایک ایک دانہ چگے گی سبھی دانے ختم ہونگے تبھی تو کہانی آگے چلے گی۔ پھر ایک چڑیا آئی دانہ چگا اور ہو گئی پھررر۔
راجہ سمجھ گیا کہ آج سیر کو سوا سیر ملا ہے۔ راجہ نے سوچا یہ کہانی تو ختم ہی نہیں پو سکتی، اسے ڈند(سزا) کیسے دوں، اسے انعام دے کر ہی پیچھا چھڑانا بہتر ہے پھر راجہ نوجوان سے بولا: "اے نوجوان! پھررر پھررر بند کر، سچ مچ تیری کہانی سب سے لمبی ہے، تمہیں ریاست کی ساری جاگیر انعام میں دی جاتی ہے اور اس کے علاوہ ہم تمہیں منہ مانگا انعام بھی دینا چاہتے ہیں بولو تمہیں کیا چاہیئے؟
نوجوان بولا: "میرا انعام یہی ہے کہ آپ سبھی کہانی کاروں کو رہا کر دیں جنہیں آپ نے قیدی بن رکھا ہے، کسی کو بلاوجہ ستانا کوئی اچھی بات تھوڑی ہے۔ اس سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے اور ملک میں میں امن ختم ہو جاتا ہے میں چاہتا ہوں کی میرے ملک پر ایسی مصیبت کبھی نہ آئے۔
راجہ نے کچھ سوچا اور بولا: "بات تو تمہاری ٹھیک ہے پھر راجہ نے تمام قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
اس طرح اس نوجوان نے اپنے باپ کو ہی قید سے رہا نہیں کیا بلکہ اپنے سوجھ بوجھ سے راجہ کو صحیح راستے پر بھی لے آیا۔
اگر
ہماری یہ پوسٹ آپ کو اچھی لگے تو اسے لائک اور شیئر ضرور کیجے شکریہ
Hazrat Ali as aur aik yahodi ka waqia , iman afroz waqia.حضرت علیؑ اور ایک یہودی کا واقعہ
حضرت علیؑ سے ایک یہودی عالم کےعجیب و غریب سوالات
حضرت علیؑ کے پاس ایک مرتبہ ایک یہودی عالم آیا اس نے آپ کے سامنے سوال رکھے اور کہا آپ مجھے ان سوالوں کے فوری طور پر جواب دیں۔
حضرت علیؑ نے فرمایا تم سوال کرو۔
اس نے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ وہ کونسا مرد ہے جس کی نہ والدہ ہے اور نہ والد اور یہ بتائیں وہ کونسی عورت ہے جس کا نہ والد ہے نہ والدہ ہے اور وہ کونسا مرد ہے جس کی والدہ تو ہے مگر والد نہیں ہے اور وہ پتھر کونسا ہے جس سے ایک جانور کی ولادت ہوئی اور وہ کون سی عورت ہے جس نے ایک ہی دن میں تین پہروں میں ایک بچے کو جنم دیا اور کون سے وہ دو دوست ہیں جو کبھی آپس میں دشمن نہیں بنیں گے اور وہ کون سے دو دشمن ہیں جو کبھی دوست نہیں بنیں گے۔
عالم کے سوالات ختم ہوتے ہی حضرت علی نے فرمایا تمھارے سوالوں کے جوابات یہ ہیں کہ وہ مرد جس کا نہ والد ہے اور نہ والدہ وہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور وہ عورت جس کی نہ والدہ ہے اور نہ والد وہ اماں حوا علیہا السلام ہیں جس پتھر کے بارے میں تم نے پوچھا وہ پتھر ہے جس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی پیدائش ہوئی اور وہ عورت جس نے تین پہر میں بچے کو جنم دیا وہ حضرت مریم علیہ السلام ہیں جن کو ایک پہر میں حمل ٹھہرا دوسرے پہر میں زچگی کا درد ہوا اور تیسرے پہر میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور وہ دو دوست جو کبھی آپس میں دشمن نہیں بنیں گے وہ روح اور جسم ہیں اور وہ دشمن جو آپس میں کبھی دوست نہیں بنیں گے موت اور زندگی ہیں۔
عالم کے سوالات ختم ہوتے ہی حضرت علی نے فرمایا تمھارے سوالوں کے جوابات یہ ہیں کہ وہ مرد جس کا نہ والد ہے اور نہ والدہ وہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور وہ عورت جس کی نہ والدہ ہے اور نہ والد وہ اماں حوا علیہا السلام ہیں جس پتھر کے بارے میں تم نے پوچھا وہ پتھر ہے جس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی پیدائش ہوئی اور وہ عورت جس نے تین پہر میں بچے کو جنم دیا وہ حضرت مریم علیہ السلام ہیں جن کو ایک پہر میں حمل ٹھہرا دوسرے پہر میں زچگی کا درد ہوا اور تیسرے پہر میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور وہ دو دوست جو کبھی آپس میں دشمن نہیں بنیں گے وہ روح اور جسم ہیں اور وہ دشمن جو آپس میں کبھی دوست نہیں بنیں گے موت اور زندگی ہیں۔
یہ جوابات سن کر وہ عالم حیرت کے سمندر میں کھو گیا اور اور کہنے لگا حضرت علی بلاشبہ آپ نے درست جواب دیئے ہیں اور واقعی آپ علم کے شہر کا دروازہ ہیں
پیرے دوستو ۔ اگر پوسٹ اچھی لگے تو لائک اور شیئر ضرور گیجیے گا۔
Sunday, February 23, 2020
Badshah ke sipahi |Sabaq amoz waqia
بادشاہ کے سپاہی
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا
ہے کہ ایک شخص نے اللہ پاک کی عبادت کرنا شروع کر دی اور پرودگار کی عبادت میں اتنا
مشغول ہوا کہ دنیا میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سب کچھ بھلا دیا اور سچے دل سے اللہ کی
رضا میں راضی رہنے کیلئے انسانیت کے راستے پر چل پڑا۔
ایک وقت وہ آیا کہ اس کے گھر میں
کھانے کو بھی نہ بچا اور ہوتے ہوتے وہ وقت بھی آیا کہ گھر بار سب ختم ہوگیا اور اب
وہ شخص موت کا انتظار کرنے لگا کہ اب بچا تو کچھ نہیں تو اب انتظار ہی کر سکتا
ہوں۔
ایک دن بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے قریب سے لمبی قطار میں گھوڑے گزرے۔ ان گھوڑوں کی سیٹ سونے اور چاندی سے بنی ہوئی تھی اور ان کی پیٹھوں پر سونے کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ان گھوڑوں پر جو لوگ سوار تھے وہ کسی شاہی گھرانے سے کم نہ لگتے تھے۔ ان کے سروں پر سونے کی ٹوپیاں تھیں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی بادشاہ جا رہے ہیں۔
ایک دن بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے قریب سے لمبی قطار میں گھوڑے گزرے۔ ان گھوڑوں کی سیٹ سونے اور چاندی سے بنی ہوئی تھی اور ان کی پیٹھوں پر سونے کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ان گھوڑوں پر جو لوگ سوار تھے وہ کسی شاہی گھرانے سے کم نہ لگتے تھے۔ ان کے سروں پر سونے کی ٹوپیاں تھیں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی بادشاہ جا رہے ہیں۔
اس شخص کے دریافت کرنے پر اسے بتایا
گیا کہ یہ ساتھ شہر میں ایک بادشاہ ہے یہ سب اس کے غلام ہیں اور بادشاہ کے دربار
میں جا رہے ہیں۔
وہ شخص کچھ دیر حیران ہوا کہ یہ حالت غلاموں کی ہے تو بادشاہ کی حالت کیا ہو گی؟
اس نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا: " اے میرے بادشاہ! اے میرے مالک! اے میرے اللہ! شکوہ تو تجھ سے نہیں کرتا لیکن اس بادشاہ سے ہی غلاموں کا خیال رکھنا سیکھ لے۔ اتنی بات کہہ کر وہ شخص چل دیا۔
وہ شخص کچھ دیر حیران ہوا کہ یہ حالت غلاموں کی ہے تو بادشاہ کی حالت کیا ہو گی؟
اس نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا: " اے میرے بادشاہ! اے میرے مالک! اے میرے اللہ! شکوہ تو تجھ سے نہیں کرتا لیکن اس بادشاہ سے ہی غلاموں کا خیال رکھنا سیکھ لے۔ اتنی بات کہہ کر وہ شخص چل دیا۔
کچھ دن گزرے تو ایک بزرگ آئے اور اس
کا بازو پکڑ کر ایک جگہ لے گئے۔
جہاں وہی غلام وہی گھوڑے تھے اور دیکھتا کیا ہے کہ کسی گھوڑے کی ٹانگ کٹی ہوئی ہے تو کسی غلام کا دھڑ گھوڑے کی پشت پر پڑا ہوا ہے تو کسی غلام کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں تو کسی کے سر سے خون بہہ رہا ہے تو کوئی گھوڑے کو زخمی حالت میں واپس لے کر جا رہا ہے۔
وہ شخص حیران ہوا اور ان بزرگ سے پوچھا: " جناب آپ کون ہیں اور یہ سب کیا ماجرا ہے؟
ان بزرگ نے کہا کہ یہ وہی غلام ہیں جو اس دن سونے میں لپٹے ہوئے تھے اور آج یہ ایک جنگ سے واپس آ رہے ہیں اس لیئے ان کی یہ حالت ہے مجھے خواب میں بس اتنا کہا گیا ہے کہ اسے کہنا کہ بادشاہوں کیلیئے قربانیاں دینا بھی ان غلاموں سے سیکھ لے
حقیقت میں ہمیں قربانی دینا آیا ہی نہیں۔ چاہے دین کا معاملہ سیدھا کرنا ہو، رشتہ داروں کا یا دنیا کا۔ جس دن ہم قربانی دینا سیکھ لیں گے دین کیلیئے اپنوں کیلیئے اور دنیا کیلیئے اللہ پاک پر توکل کرنا سیکھ لیں گے۔ اس دن اللہ پاک ہمیں ایسی بادشاہت عطا فرمائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگی
جہاں وہی غلام وہی گھوڑے تھے اور دیکھتا کیا ہے کہ کسی گھوڑے کی ٹانگ کٹی ہوئی ہے تو کسی غلام کا دھڑ گھوڑے کی پشت پر پڑا ہوا ہے تو کسی غلام کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں تو کسی کے سر سے خون بہہ رہا ہے تو کوئی گھوڑے کو زخمی حالت میں واپس لے کر جا رہا ہے۔
وہ شخص حیران ہوا اور ان بزرگ سے پوچھا: " جناب آپ کون ہیں اور یہ سب کیا ماجرا ہے؟
ان بزرگ نے کہا کہ یہ وہی غلام ہیں جو اس دن سونے میں لپٹے ہوئے تھے اور آج یہ ایک جنگ سے واپس آ رہے ہیں اس لیئے ان کی یہ حالت ہے مجھے خواب میں بس اتنا کہا گیا ہے کہ اسے کہنا کہ بادشاہوں کیلیئے قربانیاں دینا بھی ان غلاموں سے سیکھ لے
حقیقت میں ہمیں قربانی دینا آیا ہی نہیں۔ چاہے دین کا معاملہ سیدھا کرنا ہو، رشتہ داروں کا یا دنیا کا۔ جس دن ہم قربانی دینا سیکھ لیں گے دین کیلیئے اپنوں کیلیئے اور دنیا کیلیئے اللہ پاک پر توکل کرنا سیکھ لیں گے۔ اس دن اللہ پاک ہمیں ایسی بادشاہت عطا فرمائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگی
Friday, February 21, 2020
Chugal khor Aur kkisan,sabaq amoz kahani

چغل خور اور کسان
کسی گاؤں میں ایک چغل خور رہتا تھا۔دوسرں کی چغلی کھانا اس کی عادت تھی اور وہ کوشش کے باوجود اپنی اس عادت کو نہ چھوڑ سکا تھا۔ اسی عادت کی وجہ سے اسے اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ کچھ دن وہ اپنی جمع پونجی پر گزارا کرتا رہا۔ پھر جب نوبت فاقوں تک آگئی تو اس نے گاؤں کو چھوڑ کر کہیں اور قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہ تھوڑا سا ضروری سامان لے کر سفر پر روانہ ہو گیا اور چلتے چلتے ایک اور گاؤں تک جا پہنچا۔
یہ گاؤں اس کیلیئے نیا تھا اور اسے وہاں کا کوئی بھی شخص نہیں جانتا تھا۔
وہ ایک کسان کے پاس گیا اور اس سے ملازمت کی درخواست کی۔ کسان اکیلا تھا اور اسے ملازم کی ضرورت بھی تھی۔ چغل خور اتفاق سے کھیتی باڑی کا کام جانتا تھا۔ اس لیئے کسان اسے اپنے پاس ملازم رکھنے کو تیار ہو گیا۔ کسان نے جب چغل خور سے تنخواہ کی بات کی تو اس نے کہا کہ آپ مجھے صرف روٹی کپڑا دے دیں اور مجھے اجازت دے دیں کہ چھ ماہ بعد میں صرف ایک چغلی کھا لیا کروں۔
کسان اس کی بات سن کر پہلے تو بہت حیران ہوا پھر سوچنے لگا کہ مفت میں نوکر مل رہا ہے، خالی روٹی کپڑا میں کیا برا ہے۔ چھ ماہ بعد ایک چغلی کھا لے گا تو میرا کیا
بگاڑ لے گا۔چناچہ اس نے چغل خود کو ملازم رکھ لیا۔
چھ ماہ گزر گئے۔ کسان چغل خور کی بات کو بھول چکا تھا۔ مگر چغل خور کو اپنی عادت کی وجہ سے یہ بات یاد تھی۔ معاہدے کی رو سے وہ کسان کی چغلی کھا سکتا تھا۔
ایک روز کسان کھیتوں میں گیا ہوا تھا اور گھر میں اس کی بیوی اکیلی تھی۔ چغل خور کسان کی بیوی کے پاس گیا اور ہمدردی جتا تے ہوئے کہنے لگا: " کسان کو کوڑی ہوگیا ہے اور اس نے اپنی بیماری تم سے چھپائی ہوئی ہے۔
کسان کی بیوی پہلے تو حیران ہوئی مگر چغل خور نے اسے قائل کر لیا اور کہا کہ کوڑی کا جسم نمکین ہوجاتا ہے۔ اگر تم جاننا چاہتی ہو کہ کسان کوڑی ہوگیا ہے یا نہیں تو تم اس کے جسم کو کاٹ کر دیکھ سکتی ہو۔
کسان کی بیوی اس کی باتوں میں آگئی اور اس نے سوچا کہ اس طرح نوکر کے سچ اور جھوٹ کا پتا لگ جائے گا۔ وہ بولی کہ کل جب میں کسان کا کھانا لے کر کھیتوں میں جاؤں گی تو حقیقت کا پتا لگاؤنگی۔
چغل خور نے اب کھیتوں کا رخ کیا۔ فصل پک جانے کی وجہ سے کسان دو روز سے گھر نہیں گیا تھا۔ چغل خور کسان کے پاس پہنچا اور اس سے بڑی راز داری کے ساتھ کہنے لگا کہ تم یہاں کھیتوں میں کام کر رہے ہو اور ادھر تمہاری بیوی پاگل ہو گئی ہے اور پاگل پن میں آدمیوں کو کاٹنے دوڑتی ہے۔
کسان یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ یہ دیکھ کر چغل خور نے کہا اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں آتا تو کل جب وہ کھانا لے کر آئے تو اس وقت دیکھ لینا۔
کسان کو اپنی بات پر قائل کر کے چغل خور کسان کے سالوں کے پاس گیا اور ان سے کہنے لگا کہ تمہارا بہنوئی تمہاری بہن کو روز مارتا ہے اور تم ہو کہ اپنی بہن کی خبر تک نہیں رکھتے۔
کسان کے سالوں نے جب اس کی بات کا یقین نہیں کیا تو چغل خور کہنے لگا: " اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں جھوٹ بول رہا یوں تو کل دوپہر کو جب تمہاری بہن کھیتوں میں کھانا لے کر جائے گی تو اس وقت تم خود دیکھ لینا کہ کسان تمہاری بہن کو کس طرح مارتا ہے۔
کسان کے سالے چغل خور کی باتوں میں آ گئے اور کہنے لگے: " کہ اچھا کل ہم کھیت میں چھپ کر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
چغل خور وہاں سے رخصت ہو کر کسان کے بھائیوں کے پاس گیا اور ان سے کہنے لگا کہ تمہارے بھائی کے سالے ہر چوتھے روز تمہارے بھائی کو مارتے پیٹتے ہیں اور تم ہو کہ اپنے بھائی کی مدد کو نہیں آتے۔
انہوں نے بھی چغل خور کی بات پر شک کیا۔
تو وہ کہنے لگا: " اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں آ رہا تو کل دوپہر کو کھیتوں میں آکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا کہ کسان کے سالے اسے کیسے مارتے ہیں۔
کسان کے ببھائی بھی اس کی باتوں میں آ گئے اور کہا کہ ہم بھی دیکھتے ہیں وہ کیسے ہمارے بھائی کو ہاتھ لگاتے ہیں۔
چغل خور ان سے یہ باتیں کر کے واپس آ گیا اور اپنے کام کاج میں اس طرح مصروف ہو گیا کہ کسی کو پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا تھا اور کہاں سے آیا ہے۔
اگلے روز کسان کی بیوی جب کھانا لے کر کھیتوں میں گئی تو کسان اس کے قریب ہونے سے ڈر رہا تھا اور وہ کسان کے قریب ہونے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ اس کے جسم کو کاٹ کر دیکھ سکے کی نمکین ہے یا نہیں۔ جونہی وہ سالن اور روٹی زمین پر رکھ کر بیٹھی کسان جلدی سے پیچھے ہٹ گیا، یہ دیکھ کر کسان کی بیوی بھی روٹیوں کی چنگیر آگے بڑھانے کے بہانے ذرا قریب آ گئی۔ پھر جیسے ہی کسان نے روٹی کا لقمہ توڑنے کیلیئے ہاتھ آگے بڑھایا اس کی بیوی نے جھپٹ کر اس کی کلائی پکڑ لی اور اسے کاٹنے کیلیئے منہ آگے بڑھایا۔
کسان اچھل کر دور ہٹ گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ واقعی اس کی بیوی پاگل ہوچکی ہے اور کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ ادھر کسان کی بیوی نے یہ دیکھا کہ کسان اس سے دور بھاگ
رہا ہے تو اسے بھی یقین ہو گیا کہ کسان وقعی کوڑی ہو گیا ہے اور نوکر کی بات ٹھیک تھی۔ اس نے ایک بار پھر آگے بڑھ کر کسان کی کلائی پکڑنے کی کوشش تو کسان نے ایک دم جوتا پکڑا اور بیوی کو مارنا شروع کردیا۔
قریبی کھیت میں چھپے ہوئے کسان کے سالے باہر نکل آئے انہیں نوکر کی بات کا یقین آگیا کیونکہ ان کی آنکھوں کے سامنے کسان ان کی بہن کو پیٹ رہا تھا۔ وہ للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور کسان پر ٹوٹ پڑے اس پر دوسرے کھیت میں چھپے ہوئے کسان کے بھائیوں کو بھی نوکر کی بات کا یقین آگیا۔ انہوں نے کھیت سے نکل کر کسان کے بھائیوں کو للکارا۔ اس کے بعد وہ سب ایک دوسرے سے لڑ پڑے۔
آخر کار اردگرد کے کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں نے آ کر انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا اور جب ان سے پوچھا کہ تم سب اس طرح کیوں لڑ رہے ہو تو سب نے اپنی اپنی بات بتائی۔ جس پر یہ معلوم ہوا کہ یہ سب کارستانی اس نوکر کی ہے۔ وہ سب مل کر چغل خور کی تلاش میں نکلے۔ لیکن چغل خور گاؤں چھوڑ کر جا چکا تھا
Subscribe to:
Posts (Atom)