Thursday, February 27, 2020

Lakar Hare ka Khoda Par Bhrosa | Aik Sabaq amoz kahani | Moral Urdu Stories |

کسی گاوں میں ایک لکڑہارا رہتا تھا جو اپنی گزر بسر کیلیئے جنگل سے لکڑیاں کاٹتا اور بازار جا کر بیچ آتا تھا اس کے ساتھ اس کا ایک شاگرد بھی تھا جس کا نام علی تھا۔ علی سارا دن اس کے ساتھ رہتا اور کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا۔ ہر روز کی طرح جب ایک دن وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہے تھے انہیں شیر کی آواز سنائی دی، جیسے ہی انہوں نے شیر کی آواز سنی وہ دونوں گھبرا کر جلدی سے ایک درخت پر چڑھ گئے۔ اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شیر جو منہ میں ایک ہرن کو اٹھائے ہوئے تھا قریب ایک درخت کی نیچے بیٹھ کر وہ اپنے شکار کیئے ہوئے ہرن کو کھانے لگا۔لکڑہارا اور اس کا شاگرد دم سادھے درخت سے چمٹے رہے اور شیر کو دیکھتے رہے۔کافی دیر بعد جب شیر کا پیٹ بھر گیا تو وہ بچے ہوئے ہرن کو وہیں چھوڑ کر چل دیا۔شیر کے چلے جانے کے بعد جیسے ہی لکڑہارا اور اس کا شاگرد نیچے اترنے لگے یہ دیکھ کر واپس اپنی جگہ پر دبک گئے کہ ایک زخمی لومڑی جو بڑی مشکل سے لنگڑا کر چل رہی تھی گھیسٹ گھیسٹ کر اس بچے ہوئے ہرن کی طرف بڑھنے لگی اور اس بچے ہوئے ہرن سے اپنا پیٹ بھرنے لگی ابھی لومڑی وہاں سے جانے ہی والی تھی کہ کچھ اور چھوٹے جانور وہاں پہنچ گئے پھر پرندے اس سے لطف اندوز ہوئے اور آخر میں کیڑوں مکوڑوں نے اس ہرن سے پیٹ بھرنا شروع کر دیااس تمام نظارے کو دیکھ کر لکڑہارے پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ بولا: "واہ میرے رب تو اپنی مخلوق کو کبھی بھی بھوکا نہیں چھوڑتا اور تو ان کا رزق انکے دروازے تک پہنچاتا ہے، ان کو بھی جو محنت کر کے کچھ کھانے کے قابل نہ ہوں۔اس واقعے کا لکڑہارے پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے اپنی کلہاڑی اپنے شاگرد کے حوالے کی اور بولا جب رب مخلوق کو کسی حال میں بھوکا نہیں چھوڑتا تو ہمیں اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت، کیوں نہ ہم بھی آرام سے بیٹھ جائیں اللہ پاک ہمارا مقرر کیا ہوا رزق ہم تک پہنچاتا رہے گا اور ہم اپنی کٹیا میں بیٹھ کر اس کی عبادت کرینگے، جب وہ اس زخمی لومڑی کے گھر اس کا رزق پہنچاتا ہے تو مجھے یقین ہے اللہ پاک ہمیں بھی بھوکا نہیں رکھے گا ۔اس کے بعد لکڑہارا اپنی کٹیا میں اللہ پاک کی عبادت میں مشغول ہو گیا اور دنیا سے لاتعلقی اختیار کر لی۔دوسری طرف اس کے شاگرد نے محنت کی راہ اپنا لی۔ اب وہ استاد کی جگہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بازار لے جانے لگا۔ پہلے ہی دن جب وہ لکڑیاں کاٹ کر بازار میں پہنچا  تو ایک امیر شخص نے علی سے لکڑیاں خرید لیں اور علی کی توقع(امید) سے بڑھ کر اس کی اجرت ادا کی اور علی کو ہدایت کی کہ آئیندہ وہ جتنی بھی لکڑیاں کاٹے وہ میرے گودام میں پہنچا دیا کرے۔اسی دن علی خوش خوش اپنے استاد کے گھر پہنچا اور اپنی آمدن کا کچھ حصہ استاد کے منع کرنے کے باوجود اسے دے دیا۔ستاد بہت خوش ہوا اور بولا آج میرا پہلا دن تھا اور کس طرح میرے پیارے رب نے میرا رزق مجھ تک پہنچا دیا۔علی استاد کی بات سن کر بولا: "اب آپ فکر نا کریں میں اپنی آمدن کا ایک حصہ روزانہ آپ تک پہنچاتا رہونگا۔ایسے ہی دن گزرتے گئے اور شاگرد کی آمدن میں اضافہ ہونا لگا اور وہ نا صرف اس میں سے اپنے استاد کو حصہ دیتا رہا بلکہ دوسرے غرباء(غریبوں) کیلیئے بھی لنگر کا اہتمام شروع کر دیا۔دوسری طرف استاد نے اس کو غیبی امداد سمجھتے ہوئے مزید دنیا سے کناراکشی اختیار کر لی۔ایک دن علی اپنے استاد کے پاس پہنچا اور اسے اس بات کی دعوت سی کہ وہ اس کے ساتھ چل کر اس کے نئے گھر کا افتتاح کرے۔یہ سن کر استاد بہت خوش ہوا اور اسے دعائیں دیتے ہوئے اس کے ساتھ چل دیا۔گھر پہنچ کر جب استاد نے شاگرد کا شاندار گھر دیکھا تو وہ حیران رہ گیا اور بولا: "ارے! اتنا شاندار گھر اور یہ اتنا بڑا لنگر یہ کیسے ہوا؟علی بولا یہ سب آپ کی تعلیم اور آپکی کلہاڑی کی بدولت ہے جو اللہ پاک نے مجھے اتنا شاندار گھر عطا کیا۔گھر واپس آ کر استاد بہت پریشان ہوا اور خود کو کوستے ہوئے بڑبڑانے لگا میں نے آخر اسے اپنے کلہاڑی کیوں دی تھی اگر آج وہ کلہاڑی میرے پاس ہوتی تو یقینا میں بھی ایسا ہی ایک شاندار گھر بنا لیتا واہ رے قدرت! یہ تیرا کیسا انصاف ہے کہ اس کو تو تو نے اتنا امیر کر دیا اور مجھے اتنا غریب، مجھے ہر روز اس کی دی ہوئی تھوڑی سی خیرات پر گزارا کرنا پڑتا ہے جبکہ وہ جس نے کام بھی مجھ سے سیکھا آج اتنی ٹھاٹ سے زندگی گزار رہا ہے یہ یہ سرا سر نا انصافی ہے اور یہ کہتے ہوئے وہ رونے لگا، جب اس کی آہ و بکا بہت بڑھی تو غیب سے ایک آواز آئی " تم نے لومڑی سے متاثر ہو کر جو راہ چنی تھی وہ رزق تو تجھے بلاناغہ ملتا رہا لیکن تیرے اس شاگرد نے لومڑی کی بجائے شیر سے سبق لیا اس نے نا صرف اپنے کھانے کا انتظام کیا بلکہ تجھے اور تجھ جیسے بہت سارے افراد کیلیئے بھی رزق کی فراہمی کا سبب بنا رہا اب تو بتا تیری شکایت جائز ہے یا غلط؟اس کے بعد استاد نے پھر سے جنگل جا کر محنت سے لکڑیاں کاٹنی شروع کر دیں اور جلد ہی خوشحال ہو گیا۔دوستوں! اوپر والا ہاتھ ہمیشہ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ ایک مظبوط اور خوشحال مسلمان جو دوسروں کی مدد کرسکے زیادہ آجر کا مستحق ہے۔دوستوں! ہم سب کو شیر بن کر زندہ رہنا ہوگا جو خود بھی اپنے لیئے بھی شکار کرتا ہے اور دوسروں کے رزق کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔


No comments:

Post a Comment