Friday, March 20, 2020

Hazrat Syed sakhi Sarwar RA biography. Halat o waqiat.حضرت سخی سرورؒ



ڈیرہ غاز ی خان کو  اگرچہ ڈویژن کا   درجہ حاصل ہےلیکن بلحاظ ترقی بےحد پسماندہ ہے۔
یہاں کی زبان سرائیکی ہے جس میں بےحد مٹھاس اور شیرینی ہے۔ لوگ سادہ‘ ملنسار‘ مودّب اور محبت کرنے والے ہیں۔ شاید یہ نمایاں خصوصیات ان بزرگانِ دین کی تعلیمات کا ثمر ہیں۔ جو اس علاقےمیں بطرف جنوب پچاسی میل کےفاصلے پر کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ غلام فرید بجانب مشرق اڑتالیس میل دور تونسہ شریف میں حضرت سلیمان تونسوی اور مغرب کی سمت پچیس میل دور حضرت سید احمد سلطان سخی سرور شہید آسودہ خواب ہیں۔
سخی سرور میں صرف ایک ہی چھوٹا سا ٹیڑھا میڑھا بازار ہے جس کےشمالی کنارے پر بسوں کا اڈا اور جنوبی سرے پر حضرت سلطان سخی سرور شہید کےمزارِ اقدس کی عمارت کا صدر دروازہ کھلتا ہے۔ اس کےاوپر دو منزلہ کمرے بنےہوئے ہیں اندر داخل ہوں تو سامنےکشادہ صحن اور تین کمرے ہیں جن میں سےایک میں مزارِ مبارک پر چڑھائےگئے پرانےغلاف رکھےہیں۔ اس کےساتھ چھوٹےسےتاریک کمرے میں ہر وقت شمع روشن رہتی ہے۔ دیوار کےساتھ اونچا سا تھڑا ہے جس پر مصلیٰ بچھا ہوا ہے اس پر حضرت صاحب عبادت و ریاضت کیا کرتےتھے۔ اس سےملحقہ کشادہ کمرے میں دائیں کونےمیں آپ کا مزار ہے۔ اس کےقریب چھوٹےسےچبوترے پر ہر وقت چراغ روشن رہتا ہے۔ مزارِ اقدس کےقدموں کی طرف نیچےزمین کےاندر ڈیڑھ دو بالشت چوڑا سوراخ ہے جو قبرمبارک کےاندر جاتا ہے۔ زائرین اس میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرتےہیں۔ بعض اوقات کسی کو کوئی چیز مل بھی جاتی ہے تو وہ خود کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہے۔ مقامی لوگوں کےسوا آٹھ صدیاں قبل جب حضرت سلطان سخی سرور شہادت کےبعد یہاں دفن کئےگئےتو اس ویرانےمیں آپ کی بیوی اور دو بچے بھی ساتھ تھے۔ آپ کی بیوی نےبارگاہِ خداوندی میں فریاد کی کہ اب مجھےکس کا سہارا ہے تو حکم ایزدی سےاس جگہ سے زمین شق ہو گئی جس میں آ پکےبیوی بچےسما گئے۔ اس واقعہ کی کسی مستند حوالےسےتصدیق نہیں ہو سکی لیکن اتنا ضرور ہےکہ آپ کی محترمہ بیگم کی قبر یہیں پر ہے۔
حضرت سلطان سخی سرور شہید کا شجرہ نسب
حضرت سید احمد سخی سرور لعلاں والا بن سید زین العابدین بن سید عمر بن سید عبدالطیف بن سید شیخار بن سید اسمٰعیل بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن زین العابدین بن حضرت حسین بن حضرت علی۔
مقبرے کےکمرےاور صحن کےبائیں جانب مسجد ہے۔ جس کےتین محراب ہیں، اور کمرے کے ہر کونےمیں آپ کےچار یاروں سخی بادشاہ سید علی شہید، سیدنور شہید، سید عمر شہید اور سید اسحاق شہید کےاسمائےگرامی رقم ہیں۔
مسجد کےبالمقابل مشرقی سمت اونچی سی جگہ پر دو بہت بڑی دیگیں پڑی ہیں جن میں منوں اناج پک سکتا ہےکہتےہیں جب حضرت سخی سرور حیات تھےتو بغیر آگ جلائےان دیگوں میں جو چاہتے پکا لیا کرتےتھے۔
بجانب مغرب جدھر آپ کا چہرہ انور ہے آپ کےچار یاروں کی قبور ہیں۔ حضرت سید علی شہید اور حضرت سیدنور شہید کی پختہ قبریں ایک پہاڑی کی چوٹی پر ہیں جبکہ حضرت سیدعمر شہید اور حضرت اسحاق شہید کی کچی قبور اس کےبالمقابل دوسری پہاڑی کی چوڑی پر ہیں۔ چشم باطن سےدیکھنےوالوں کو یوں احساس ہوتا ہےجیسےآپ اپنےیاروں کی طرف دیکھ رہےہوں۔
حضرت سید احمد سلطان سخی سرور شہید کےوالد بزرگوار حضرت زین العابدین سرزمین پاک و ہند تشریف لانےسےقبل بائیس سال سےروضہ رسول اطہر کی خدمت کرتےچلے آ رہے تھے۔ ایک روز سیدالانبیاء وختم المرسلین نےعالم خواب میں ہندوستان جانےکا حکم دیا۔ آپ نےفوراً رخت سفر باندھا اور ضلع شیخوپورہ میں شاہکوٹ میں قیام کیا۔ یہ 520 ہجری (1126ء) کا واقعہ ہے۔ آپ ہر وقت یادِ الٰہی میں مشغول رہتےتھے۔ گزر اوقات کیلئےآپ نےزراعت کےعلاوہ بھیڑ بکریاں بھی پال رکھی تھیں۔ دو سال کےبعد آپ کی اہلیہ محترمہ بی بی ایمنہ جنت الفردوس کو سدھاریں۔ ان کےبطن سےتین لڑکےحضرت سلطان قیصر، حضرت سید محمود اور حضرت سید سہرا تھی۔ شاہکوٹ کا نمبردار پیرا رہان آپ کا مرید تھا۔ اس نےاپنی کھوکھر برادری سےمشورہ کےبعد اپنی بڑی دختر بی بی عائشہ کو آپ کے عقد میں دے دیا۔ ان کےبطن سے524 ہجری (1130ء) میں حضرت سید احمد سلطان پیدا ہوئےاور پھر ان کے بھائی حضرت عبدالغنی المعروف خان جٹی یا خان ڈھوڈا نےجنم لیا۔
آپ بچپن سے ہی بڑے ذہین و فہمیدہ تھے۔ اکثر اوقات اپنے والد مکرم سےشرعی مسائل سیکھتےرہتےتھے۔ ان دنوں لاہور میں مولانا سید محمد اسحاق ظلہ العالی کےعلم و فضل کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ کو علوم ظاہری کےزیور سےآراستہ کرنےکیلئےلاہور بھیج دیا گیا۔ حضرت مولانا کی محبت و تربیت و تعلیم کی بدولت آپ ان تمام صلاحیتوں اور صفات سےمتصف ہو گئےجو کسی عالم دین کا خاصہ ہوتی ہیں۔ تحصیل علم کےبعد واپس آکر باپ کا پیشہ اختیار کیا لیکن زیادہ تر وقت یادِ الٰہی میں ہی بسر ہوتا تھا۔ ظاہری علوم کےہم آہنگ علوم باطنی حاصل کرنےکا جذبہ اشتیاق سینےمیں کروٹیں لینےلگا جس میں روزافزوں طغیانی آتی گئی۔ آپ کےوالد محترم نےجب اپنےاس ہونہار بیٹےکا رجحان دیکھا تو اس طرح تربیت فرمانےلگےجیسےمرشد مرید کی تربیت کرتا ہے۔ لیکن دل کی خلش برقرار رہی۔ چاہتےتھےکہ سلوک و معرفت کی راہوں پر گامزن ہوں۔ علم لدنی سےمالامال ہوں اور کسی صاحب حال بزرگ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوں۔
جب 535 ہجری (1141ء) میں آ پ کےوالد گرامی نےرحلت فرمائی اور شاہکوٹ میں ہی مدفن ہوئےتو آپ کےخالہ زاد بھائی ابی۔ جودھا ساون اور مکو نےآپ کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ روزافزوں ان کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہوں نے پیرا رہان کی وفات کےبعد زرخیز زمین اپنےپاس رکھ لی اور بنجر ویران اراضی آپ کےحوالےکر دی لیکن اللہ کےکرم سےوہ زرخیز و شاداب ہو گئی تو وہ بڑے نالاں وافسردہ ہوئےاور حسد کی آگ میں جلنےلگے۔ وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتےتھےکہ حیلے بہانے سے آپ کو نقصان پہنچائیں۔
باپ کےوصال کے بعد آپ کی شادی گھنو خاں حاکم ملتان کی بیٹی بی بی بائی سے ہو گئی۔ امراءروساء نےنذرانے پیش کئے۔ جب آپ دلہن کو گھر لائےتو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مائی عائشہ نےگھی کےچراغ جلائےاور خوب خوشیاں منائیں۔ اس پر آپ کےخالہ زاد بھائی سیخ پا ہو گئےاور دل ہی دل میں آپ کو بےعزت کرنےکےمنصوبےبنانےلگے۔ انہوں نےلاگیوں اور بھانڈ میراثیوں کو بہلا پھسلا اور لالچ دےکر بھیجا کہ وہ حضرت سید احمد سلطان کو بدنام و شرمسار کریں اور ترکیب یہ بتائی کہ اگر وہ سیر دے تو وہ سواسیر مانگیں۔ انہوں نےایسا ہی کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنےنیک بندوں کی خود حفاظت فرماتا ہے۔ آپ نےنہ صرف لاگیوں‘ بھانڈوں‘ میراثیوں کو ہی نہیں بلکہ غربا و مساکین اور محتاجوں کو بےشمار دولت جہیز کا سامان اور دیگر اشیاء سے خوب نوازا اس دن سےآپ سخی سرورر‘لکھ داتا‘ مکھی خاں‘ لالانوالہ‘ پیرخانو‘ شیخ راونکور وغیرہ مختلف القابات سےنوازے جانےلگے۔ لیکن سخی سرور کا لقب ان سب پر حاوی ہو گیا۔ آپ کےخالہ زاد بھائی بھلا یہ کب برداشت کر سکتےتھے لہٰذا ان کی آتش حسد و انتقام مزید بھڑک اٹھی۔ اسی اثناء میں آپ کی والدہ محترمہ اور سوتیلے بھائی سید محمود اور سید سہر راہی ملک عدم ہوکر شاہکوٹ میں ہی دفن ہوئےتو آپ دل برداشتہ ہو گئے۔ کسی مردحق کے ہاتھ میں ہاتھ دینےکا جذبہ بڑی شدومد سےبیدار ہو گیا۔ چنانچہ تلاش حق کیلئے آپ بغداد شریف پہنچےجو ان دنوں روحانی علوم کا سرچشمہ تھا۔
آپ نےسلسلہ چشتیہ میں حضرت خواجہ مودود چشتی سلسلہ سہروردیہ میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی اور سلسلہ قادریہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ علیہم سےخرقہ خلافت حاصل کیا۔
بغداد شریف سےواپسی پر آپ نےچند دن لاہور میں قیام فرمایا اور پھر وزیرآباد کےقریب سوہدرہ میں دریائےچناب کےکنارے یادِ الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ عشق، مشک اور اللہ کےاولیاءکبھی چھپےنہیں رہتے۔ یہ الگ بات ہےکہ عام دنیادار انسان ان کےقریب ہو کر بھی فیضیاب نہ ہو۔ آپ کی بزرگی و ولایت کا چرچا چار دانگ عالم میں ہو گیا۔ ہر وقت لوگوں کا ہجوم ہونےلگا۔ جو بھی حاجت مند درِ اقدس پر پہنچ جاتا تہی دامن و بےمراد نہ لوٹتا۔ آ پکو جو کچھ میسر آتا فوراً راہ خدا میں تقسیم فرما دیتے۔ ہر جگہ لوگ آپ کو سخی سرور اور سختی داتا کےنام نامی اسم گرامی سےیاد کرنےلگے۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونےوالےدنیا کےساتھ دین کی دولت سےبھی مالامال ہونےلگے۔ دن بدن آپ کےمحبین، معتقدین اور مریدین میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
دھونکل میں بھی آپ نےچند سال قیام فرمایا۔ جہاں آپ نےڈیرہ ڈالا وہ بڑی اجاڑ و ویران جگہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نےاپنےفضل و کرم سےوہاں پانی کا چشمہ جاری فرما دیا۔ مخلوق خدا یہاں بھی جوق درجوق پہنچنےلگی۔ میلوں کی مسافت طےکر کےلوگ آگےاور اپنےدکھوں، غموں اور محرومیوں کےمداوا کے بعد ہنسی خوشی واپس لوٹ جاتےایک دن دھونکل کےنمبردار کا لڑکا مفقود الخبر ہو گیا۔ نمبردار نےحاضر خدمت ہو کر عرض کیا تو ارشاد فرمایا ‘مطمئن رہو شام تک لوٹ آئےگا‘۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
وطن مالوف سےنکلےکئی سال ہو گئےتھے۔ لہٰذا واپس شاہکوٹ تشریف لےگئے۔ اس اثناء میں آپ کی شہرت و بزرگی کےچرچے پورے ہندوستان میں پہنچ چکےتھے۔ سینکڑوں میلوں کا سفر طےکر کےلوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتےتھے۔ آپ کےخالہ زاد بھائیوں کو آپ کی یہ شہرت و مرتبہ ایک آنکھ نہ بھایا۔ اپنےلئےخطرہ محسوس کرنےلگے۔ لہٰذا ان کی دیرینہ دشمنی پھر عود کر آئی۔
جب خالہ زاد بھائیوں کی عداوت انتہا کو پہنچ گئی تو آپ نقل مکانی فرما کر ڈیرہ غازی خان تشریف لےگئےاور کوہِ سلیمان کےدامن میں نگاہہ کےمقام پر قیام فرمایا اور عبادتِ الٰہی میں مصروف ہو گئے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج کل آپ کا مزار اقدس ہے اور اب سخی سرور کےنام سےمشہور ہے۔ لوگوں کا یہاں بھی اژدہام ہونےلگا۔ ہر مذہب و ملت کےلوگ آپ کےدرِ دولت پر حاضر ہونےلگے۔ کئی ہندو، سکھ اور ان کی عورتیں بھی آپ کےعقیدت مندوں اور معتقدوں میں شامل تھیں جو سلطانی معتقد کہلاتےتھےاور اب بھی پاک و ہند میں موجود ہیں۔
آپ کےارادت مند ‘عقیدت مند‘ معتقد اور مریدین بےشمار تھےلیکن ان میں سےچار اصحاب خاص الخاص تھے۔ یہ چار یاروں کےنام سےمشہور تھے۔ انہیں آپ سے بےحد عشق تھا۔ آپ بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔
آپ کےخالہ زاد بھائیوں نےآپ کو یہاں بھی سکھ کا سانس نہ لینےدیا۔ انہوں نےاپنی قوم کےان گنت لوگوں کو آپ سے بدظن کر دیا اور جم غفیر لےکر آپ کو شہید کرنےکیلئے چل پڑے۔ ان دنوں آ پ کےسگے بھائی حضرت سید عبدالغنی المعروف خان ڈھوڈا نگاہہ سے بارہ کوس دور قصبہ ودود میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہتےتھے۔ ان کےخادم نےجب خالہ زاد بھائیوں کےعزائم کےبارے میں اطلاع دی تو تن تنہا ان کےمقابلے پر اتر آئےاور بہتر اشخاص کو حوالہ موت کرنےکےبعد جامِ شہادت نوش کیا۔ اس کےبعد وہ سب لوگ نگاہہ پہنچے۔ اس وقت حضرت سید احمد سلطان سخی سرور نماز پڑھنےمیں مصروف تھے۔ چند ایک خادم اور چاروں یار موجود تھے۔ نماز سےفراغت کے بعد جب آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ گھوڑی پر سوار ہو گئے۔ بھائیوں نےحملہ کیا تو آپ نے بھی جنگ شروع کر دی اور یاروں سمیت مقام شہادت سےسرفراز ہوئے۔ دم واپسی آپ نےارشاد فرمایا کہ میرےیاروں کو مجھ سے بلند مقام پر دفن کیا جائے۔ چنانچہ حسب الارشاد ایسا ہی کیا گیا۔
22رجب المرجب 577 ہجری (1181ء) کو تریپن سال کی عمر میں جب آپ کی شہادت ہوئی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہنچ گئے۔ لاکھوں محبین کےقلوب ورد و غم اور ہجر و فراق سےفگار ہوگئے۔ مختلف محبین و مریدین نےآپ کےمزارِ اقدس کی تعمیر میں وقتاً فوقتاً حصہ لیا لیکن بستی سخی سرور کےمکینوں کےبقول مزار کی عمارت کی تعمیر بادشاہ بابر نےاپنی نگرانی میں کرائی تھی اور اس ضمن میں اس نےایک مہر شدہ دستاویز بھی لکھی تھی۔ مغرب کی جانب ایک بہت بڑا حوض بنوایا تھا تاکہ اس میں پانی جمع رہے۔ مسجد کی محراب کےنیچےاور سطح زمین سےتقریباً پچاس فٹ اونچی بابا گوجر ماشکی سیالکوٹی کی قبر ہے کہتے ہیں کہ آپ پہاڑ پر سے پانی لا کر نمازیوں کو وضو کرایا کرتےتھے۔
حضرت سخی سرور شہید کی یاد میں ہر سال مختلف شہروں میں میلہ لگتا ہے جس میں بےشمار لوگ حصہ لیتے ہیں۔ پشاور میں اسےجھنڈیوں والا میلہ کہتےہیں۔ دھونکل میں جون، جولائی کےمہینےمیں بہت بڑے میلےکا اہتمام ہوتا ہے۔ لاہور میں اسےقدموں اور پار کا میلہ کہا جاتا ہے اور ڈیرہ غازی خان میں آ پ کا عرس گیارہ اپریل کو بڑی دھوم دھام سےمنایا جاتا ہے۔ اس میں لوگ دور و نزدیک سےشریک ہو کر اپنی محبتوں اور عقیدتوں کے چراغ روشن کرتےاور فیضیاب ہوتےہیں۔


Monday, March 16, 2020

Bakhel Aur Faqeer ka Qissa | اردو فیچر

ایک فقیر کسی بخیل کے دروازے پر گیا اور صدا لگائی کہ بابا ایک روٹی دے دے۔ اگر تر نہ ہو تو روکھی سوکھی ہی مجھے قبول ہے۔ بخیل نے کہا یہاں روٹی کہاں۔ یہ کوئی نانبائی کی دکان تھوڑی ہے۔ فقیر نے کہا اچھا روٹی نہ سہی چربی کا ایک ٹکڑا ہی دے دے۔ بخیل نے جھڑک کر کہا، ’’جا اپنا کام کر یہ کوئی قصاب کی دکان ہے۔‘‘ فقیر نے کہا، ’’اچھا پھر ایک مٹھی آٹا ہی دے دے۔‘‘بخیل نے کہا،’’ ارے آٹا یہاں کہاں۔ میں نے کوئی چکی لگا رکھی ہے؟‘‘ فقیر نے کہا، ’’بابا مشک سے پانی ہی پلا دے۔‘‘ بخیل نے لال لال دیدے نکال کر کہا، ’’جا اپنی راہ لے۔ یہاں کوئی نہر تھوڑی بہہ رہی ہے۔‘‘ غرض فقیر جو سوال کرتا، بخیل اس کو ٹال دیتا اور فقیر پر پھبتیاں کستا۔ جب فقیر مایوس ہو گیا تو وہ دامن اٹھا کر بخیل کے گھر میں گھس گیا اور ایک طرف بیٹھ کر پاخانہ کرنے لگا۔ بخیل نے کہا، ’’ہائیں ہائیںیہ کیا حرکت ہے؟‘‘ فقیر نے تڑاق سے جواب دیا، ’’ذرا ٹھہر جا میں اس ویرانے میں رفع حاجت سے فارغ ہو لوں۔ جب یہاں زندگی کا کوئی سامان ہی نہیں تو پھر یہ ویرانہ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ میں یہاں پاخانہ نہ کروں۔‘‘

Allah Walon ke kam ! baba ghulam Fareed RA ka waaia ! اردو فیچر

ایک دفعہ بابا غلام فریدؒکے پاس ان کا ایک مرید آیا
وہ لوہار کا کام کرتا تھا ۔وہ مرید آپکی خدمت میں
قینچی تیار کر کے لایا ۔ اور ادب سے آپکی خدمت مییں
پیش کی اور عرض کرنے لگا کہ بابا جی یہ میں اپنے رزق
حلال سے آپ کے لئے  تحفہ لایا ہوں ۔ بابا جی نے جب قینچی دیکھی تو مسکرائے اور فرمایا ۔ بیٹا ۔درویش تحفہ رد نہیں کیا کرتے ۔ البتہ جب اگلی مرتبہ آنا تو ایک سوئی لیتے آنا ۔ جب وہ مرید دوسری دفعہ حاضر ھوا تو ایک سوئی لے کر آیا ۔ اور آپکی خدمت میں پیش کی تو آپ نے فرمایا ۔ کہ اس دفعہ ھم نے تمہارہ تحفہ خوشی سے قبول کیا ۔ اور پسند بھی کیا کیونکہ قینچی کا کام کاٹنا اور سوئی کا کام سینا ھوتا ھے ۔ درویش کاٹنے کا نہیں سینے کا کام کرتے ہیں ۔ درویشوں کا کام محبت اور الفت کے رشتوں کی بنیاد رکھنا ھوتا ھے ۔

Sunday, March 15, 2020

Doctor Abdul Kalam | story of Doctor Abdul Kalam |


خاندان بڑا تھا لیکن روٹی بہرحال ماں ہی کو پکانی پڑتی تھی‘ وہ بیچاری سارا دن گھر کا کام کرتی‘ شام ہوتی تو وہ پورے خاندان کا کھانا بناتی‘ خاندان چولہے کے گرد جمع ہو جاتا‘ ماں توے سے تازہ روٹیاں اتارتی جاتی اور وہ کھاتے جاتے‘ ایک دن ماں کا دھیان بھٹک گیا‘ روٹی توے پر پڑی پڑی جل گئی‘ ماں نے وہ روٹی اتار کر اپنے لئے رکھ لی‘ خاوند دیکھ رہا تھا‘ اس نے فوراً کہا ”یہ روٹی مجھے دے دو“ ماں نے گھبرا کر جواب دیا ”یہ جل گئی ہے‘ میں آپ کےلئے اور-
پکا رہی ہوں“ خاوند نے مسکرا کر کہا ” مجھے دے دو‘ مجھے جلی ہوئی روٹیاں بہت پسند ہیں“ اور ساتھ ہی ہاتھ آگے بڑھا کر ٹوکری سے روٹی اٹھا لی اور مزے سے کھانے لگا‘ کھانا ختم ہوا‘ خاندان اٹھ کر اپنی اپنی چار پائیوں پر چلا گیا‘ خاندان کا چھوٹا بیٹا ہمیشہ سونے سے پہلے باپ کا ماتھا چومتا تھا‘ وہ ماتھا چومنے کےلئے والد کی چارپائی پر گیا تو اس نے سرگوشی میں باپ سے پوچھا ”ابا کیا آپ کو واقعی جلی ہوئی روٹی پسند ہے“ والد نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور آہستہ آواز میں جواب دیا ”بیٹا جلی ہوئی روٹی کس کو پسند ہو گی“ بیٹے نے پوچھا ” پھر آپ نے ماں سے جھوٹ کیوں بولا“ باپ نے جواب دیا ” بیٹا تمہاری ماں سارا دن کام کرتی ہے‘ یہ ہمیں روز اچھا اور مزے دار کھانا بھی پکا کر کھلاتی ہے‘ میں نے زندگی میں اس کے ہاتھوں سے پکی ہوئی سینکڑوں روٹیاں کھائیں‘ میں نے اگر ایک دن جلی ہوئی روٹی کھا لی تو کیا قیامت آ گئی“ باپ نے کہا ”یہ روٹی میں نہ کھاتا تو تمہاری ماں کھاتی اور یہ مجھے منظور نہیں تھا“ یہ واقعہ بچپن کی سنہری یاد بن گیا‘ وہ زندگی میں جہاں بھی رہا‘ وہ جس عہدے پر بھی پہنچا‘ اسے جو بھی پیش کیا گیا اس نے چپ چاپ کھا لیا‘ اس نے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالا اور ہاں وہ جب بھی کھانے کی میز پر بیٹھا‘ اس کے سامنے کھانا رکھا گیا تو اسے اپنی ماں اور باپ دونوں ضرور یاد آئے اور اس نے والد کے یہ الفاظ بھی ضرور دہرائے یہ کون تھا؟ یہ بھارت کے مرحوم صدر عبدالکلام تھے‘ عبدالکلام 27 جولائی کو شیلانگ میں انتقال کر گئے‘ ان کی عمر 84 سال تھی‘ یہ بھارت کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں جن کے انتقال پر ملک بھر میں سات روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا‘ یہ حقیقتاً اس اعزاز کے حق دار تھے‘ یہ 1931ءمیں بھارت کے ایک جزیرے میں پیدا ہوئے‘ جزیرے کا نام ”رامش ورام“ ہے‘ یہ جزیرہ تامل ناڈو میں سری لنکا کے قریب واقع ہے اور یہ سری لنکا کی طرف بھارت کا آخری ٹاﺅن ہے‘ عبدالکلام ”رامش ورام“ کے غریب ترین مسلمانوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ والد کا کل اثاثہ ایک کشتی تھی‘ وہ یہ کشتی یاتریوں کو کرائے پر دے دیتے تھے‘ کشتی کا کرایہ خاندان کا نان نفقہ تھا‘ عبدالکلام کے بڑے بھائی نے بچپن میں پرچون کی دکان بنا لی‘ عبدالکلام کا بچپن اور جوانی عسرت میں گزری‘ وہ تین چار سال کی عمر میں املی کے بیج اکٹھے کرتے تھے‘ سارے دن کی محنت کے بعد انہیں ایک آنہ ملتا تھا‘ وہ بھائی کی دکان پر بھی بیٹھتے تھے اور لوگوں کے گھروں میں اخبار بھی پھینکتے تھے‘ وہ اناج منڈی میں بھی کام کرتے رہے‘
وہ کام کے ساتھ ساتھ پڑھائی کرتے تھے‘ لائق تھے چنانچہ بچپن ہی میں وظیفے ملنے لگے۔ ”رامش ورام“ میں ہندوﺅں کی اکثریت تھی‘ سکول میں بھی مسلمان طالب علم کم تھے‘ اساتذہ مسلمان طالب علموں پر سختی کر کے انہیں سکول سے بھگا دیتے تھے‘ وہ بھی استادوں کے اس ناروا سلوک کا نشانہ بنتے رہتے تھے لیکن ثابت قدمی اور اللہ کی مدد دونوں ان کے شامل حال تھی چنانچہ گاﺅں کے مکھیا کو یہ اطلاع ملی تو اس نے اساتذہ کو ڈانٹ دیا اور یوں استادوں نے انہیں بھی انسان سمجھنا شروع کر دیا‘ وہ ریاضی میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے‘ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ ہوا‘ فیس ہزار روپے تھی لیکن گھر میں اتنی بڑی رقم نہیں تھی‘ عبدالکلام نے اعلیٰ تعلیم کا خیال چھوڑ دیا لیکن پھر ان کی بڑی بہن فرشتہ بن کر آئی‘ اس نے اپنی طلائی چوڑیاں بیچ کر بھائی کی فیس ادا کر دی یوں یہ یونیورسٹی پہنچ گئے لیکن وہاں فیس معافی کےلئے پوزیشن لینا ضروری تھی‘ عبدالکلام اس کے بعد صرف فیس معاف کرانے کےلئے پوزیشنیں لیتے رہے‘ یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھارت کے ایٹمی پروگرام سے وابستہ ہو گئے‘ عبدالکلام نے 1974ءمیں بھارت کو ایٹمی طاقت بھی بنایا اور یہ بھارت میں میزائل پروگرام کی بنیاد رکھ کر ”میزائل مین“ بھی کہلائے‘ یہ 2000ءتک مختلف پوزیشنوں پر کام کرتے رہے یہاں تک کہ 2002ءمیں کانگریس اور بی جے پی نے انہیں بھارت کا صدر بنا دیا‘ یہ 2007ءتک بھارتی صدر رہے۔
عبدالکلام کمال انسان تھے‘ یہ وقت کے انتہائی پابند تھے‘ صبح ساڑھے چھ سے سات بجے کے درمیان کام شروع کرتے تھے‘ ٹی وی نہیں دیکھتے تھے‘ ان کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا‘ اپنی تمام ای میلز چیک کرتے تھے اور جواب بھی دیتے تھے‘ پوری زندگی کام کیا‘ ان کا انتقال بھی شیلانگ میں لیکچر کے دوران ہوا‘ وہ لیکچر دے رہے تھے‘ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا‘ انہیں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ ’فنی گائے‘ یو آر ڈوئنگ ویل‘کہتے کہتے دنیا سے رخصت ہو گئے‘ یہ ذاتی زندگی میں انتہائی سادہ‘ ایماندار اور منکسرالمزاج تھے‘ وہ ایوان صدر میں تین بکسے لے کر آئے اور یہ تین بکسے ہی ان کے ساتھ واپس گئے‘ بھارت کے پہلے مسلمان صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے دور سے ایوان صدر میں رمضان میں افطار ڈنر دیا جاتا تھا‘ ڈاکٹر عبدالکلام صدر بنے‘ ان کی صدارت کا پہلا رمضان آیا‘ مہمانوں کی فہرست دیکھی‘ سٹاف کو بلایا اور کہا ” یہ تمام لوگ خوش حال ہیں‘ افطاری ان کا ایشو نہیں‘ ہم کیوں نہ یہ رقم یتیم خانوں میں تقسیم کر دیں“ سٹاف نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ صدر نے پوچھا ”افطار ڈنر پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے“ جواب ملا ” اڑھائی لاکھ روپے“ ڈاکٹر عبدالکلام نے اڑھائی لاکھ روپے منگوائے‘ ایک لاکھ روپے ذاتی جیب سے ڈالے‘ ساڑھے تین لاکھ روپے کا آٹا‘ دالیں‘ کمبل اور سویٹر منگوائے اور یہ سامان دہلی کے 28 یتیم خانوں میں تقسیم کرا دیا‘ وہ جب تک صدر رہے‘ وہ افطار ڈنر کی رقم اسی طرح یتیم خانوں میں تقسیم کراتے رہے‘
ڈاکٹر عبدالکلام نے مئی 2006ءمیں اپنے پورے خاندان کو ایوان صدر بلایا‘ خاندان کے 52 افراد ان کی دعوت پر دہلی آئے‘ ان میں ان کے90 سال کے بڑے بھائی شامل تھے اور ڈیڑھ سال کی پوتی بھی‘ یہ لوگ آٹھ دن ایوان صدر میں رہے‘ صدر نے انہیں اجمیر شریف بھی بھجوایا‘ یہ لوگ واپس چلے گئے تو صدر عبدالکلام نے اپنے خاندان کی رہائش‘ خوراک اور ٹرانسپورٹ کا بل منگوایا‘ یہ تین لاکھ 52 ہزار روپے بنتے تھے‘ صدر نے ذاتی اکاﺅنٹ سے یہ رقم ادا کر دی‘ انہوں نے چائے کے ایک ایک کپ کے پیسے ادا کئے‘ خاندان اجمیر شریف گیا تھا‘ اس ”زیارت“ کےلئے بھی کوئی سرکاری گاڑی استعمال نہیں ہوئی‘ صدر نے پرائیویٹ بس کا انتظام کیا اور خاندان کو اس بس پر اجمیر شریف بھجوایا‘ صدر نے پانچ برسوں میں صدر کی حیثیت سے 176 دورے کئے لیکن ان دوروں میں غیر ملکی دورے صرف سات تھے‘ باقی 169 دورے اندرون ملک تھے‘ وہ صدر کی حیثیت سے ملک کی ہر ریاست‘ ہر بڑے شہر اور ہر کمیونٹی کے پاس گئے اور ان سے ملاقات کی‘ وہ ہر ہفتے دو تین سیمیناروں میں بھی شریک ہوتے تھے اور وہاں لیکچر دیتے تھے‘ سادگی کا یہ عالم تھا‘ بھارت کے تقریباً تمام اخبارات‘ صحافیوں اور ٹیلی ویژن اینکرز نے ان کی موت پر یہ واقعہ ضرور بیان کیا‘ وہ بطور صدر کسی تقریب کی صدارت کر رہے تھے‘ عبدالکلام نے صدارتی خطبہ دے دیا‘ تقریب ختم ہو گئی‘ وہ رخصت ہونے لگے تو کسی صحافی نے ان سے سوال پوچھ لیا‘
وہ اس وقت تک سٹیج سے اتر چکے تھے لیکن وہ واپس مڑے اور سٹیج کے ایک کونے میں زمین پر بیٹھ گئے‘ ہال میں بیٹھے لوگ فوراً کھڑے ہو گئے لیکن عبدالکلام نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھے بیٹھے صحافی کی بات کا جواب دیا‘ یہ ان کی ذات میں چھپی ہوئی سادگی تھی‘ وہ اس سادگی کا مظاہرہ کرتے وقت پروٹوکول بھی فراموش کر دیا کرتے تھے‘ وہ کس قدر بڑے انسان تھے ¾ آپ اس کا اندازہ ان کے دورہ امریکا سے لگا لیجئے‘ یہ 2011ءمیں امریکا کے دورے پر گئے‘ یہ نیویارک ائیرپورٹ پہنچے تو یہ اپنے لباس‘ انداز اور نشست و برخاست‘ کسی زاویئے سے وی وی آئی پی نہیں لگتے تھے چنانچہ سیکورٹی حکام نے انہیں تلاشی کےلئے روک لیا‘ ڈاکٹر عبدالکلام نے پیشانی پر شکن ڈالے بغیر تلاشی دے دی‘ کلیئر ہوئے اور آرام سے باہر آ گئے‘ امریکی حکام کو اس واقعے کا علم ہوا تو امریکا نے اس رویئے پر بھارت سے تحریری معافی مانگی‘ یہ سلوک دنیا کے بے شمار حکمرانوں کے ساتھ ہو چکا ہے‘ ہمارے اپنے وزراءاور عسکری حکام امریکی ائیرپورٹس پر اس سلوک کا شکار ہو چکے ہیں لیکن امریکا نے معافی صرف عبدالکلام سے مانگی‘ یہ اعزاز بھی صرف انہی کو حاصل ہوا۔
دنیا میں بے شمار سیلف میڈ لوگ حکمران بنتے ہیں‘ دنیا میں ڈاکٹر عبدالکلام جیسے لوگ بھی بے شمار ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی اور کھردری زمین پر گھٹنوں کے بل چل چل کر کامیابی کے آخری زینے تک پہنچے‘ دنیا میں کامیابی انوکھی بات‘ انوکھی چیز نہیں لیکن کامیابی کے بعد اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ کر اپنی سادگی‘ اپنی ایمانداری اور اپنی عاجزی کو قائم رکھنا کمال ہوتا ہے اور ڈاکٹر عبدالکلام کا یہ کمال‘ کمال قسم کا کمال تھا‘ آپ نے درویشوں کو بادشاہ بنتے اور بادشاہوں کو درویش بنتے دیکھا ہو گا لیکن آپ نے کسی درویش کو تخت پر بیٹھ کر اپنی درویشی سنبھالتے نہیں دیکھا ہو گا لیکن ڈاکٹر عبدالکلام‘ ایک معمولی کشتی بان کے صاحبزادے ڈاکٹر عبدالکلام نے یہ کمال کیا‘ یہ تخت کے سامنے کھڑے ہو کر بھی درویش تھے اور یہ تخت پر بیٹھ کر بھی درویش رہے‘ یہ پانی پر چلتی کشتی کی طرح اقتدار کا سفر پورا کر کے دنیا سے چپ چاپ چلے گئے‘ آپ ڈاکٹر عبدالکلام کی یہ ساری داستان پڑھیں اور اس کے بعد اس سوال کا جواب دیں ”کیا بیس کروڑ لوگوں کے اس ملک میں ڈاکٹر عبدالکلام جیسا کوئی ایک شخص موجود ہے‘ کوئی ایک شخص! ہم جس کی سادگی‘ ایمانداری اور درویشی کی قسم بھی کھا سکیں اور ہم جس کے انتقال پر سات روزہ سوگ بھی منا سکیں‘ کوئی ایک! ہاں کوئی ایک ایسا شخص جو بھرپور زندگی گزارنے کے بعد یہ کہتا ہوا اطمینان سے چلا جائے‘ فنی گائے‘ یو آر ڈوئنگ ویل

Thursday, March 5, 2020

Ek Allah Wala Bozrg Aur Hindu Yatry Ka waqia | kramat | Iman afroz Waqia in Urdu |



پیارے دوستو ! ایک دفعہ شاہ عبدالطیفؒ چور پور کے جنگل میں ایک خشک اور کہنہ سال شیشم کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے ۔ کہ ہندو یاتریوں کا ایک قافلہ وہاں پہنچا ۔ آپؒ نے یاتریوں سے دریافت فرمایا کہ تم یہ اتنا سارا سازو سامان لے کر کہاں جارہے ہو ؟ ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ۔ پریاگ ۔ آپ نے پوچھا وہاں کیا کرو گے ؟ جواب ملا ۔ گنگا اور جمنا کے سنگھم پر اشنان کر کے اپنے پاپ دھوئیں گے ۔ 
آپ نے فرمایا گناہ نہانے سے صاف نہیں ھوتے نیکو کاری اور عبادت الہٰی سے ھی گناہ صاف ھوتے ہیں ۔ ہندو یاتریوں نے آپ کی باتوں کا مزاق اڑایا ۔ اور ایک  پروہت بولا اگر مخفی عبادت سے ہی گناہ صاف ہوتے اور انسان خدا کے زیادہ قریب ہو سکتا ھے تو آپ جو برسوں سے اس خشک اور کہنہ سال شیشم کے درخت کے نیچے عبادت کر رھے ہیں ۔ تو خدا نے آپ پر رحم کیوں نہیں فرمایا ۔ ورنہ وہ اسی درخت کو ہرا بھرا کرکے آپ کے لئے چھاؤں کا انتظام کردیتا ۔ ۔۔۔ ہندو پروہت کی بات سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا ! کہ میرے خدا کےلئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔ ھم مسلمان اس کی ذات پر توکل رکھتے ہیں ۔ وہ بڑا رحیم و کریم ہے اگر وہ چاہے تو فوراً اس درخت کو ہرا بھرا کر دے ۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ھے ۔ یہ کہہ کر آپ نے آیتِ کریمہ پڑھی اور دعا کے لئے ھاتھ اٹھائے ۔ مجیب الداعوات نے آپ کی دعا قبول فرمائی ۔ اور شیشم کا خشک اور کہنہ سال درخت فوراً ہرا بھرا ہوگیا ۔ اور اس کی شاخیں بڑھ گئیں ۔ ہندو یاتریوں کا پورا قافلہ یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا ۔ 
اور آپؒ کے دست حق پرست پر سبھی یاتری اسلام لے آئے ۔ (تزکراء اولیاء پاکستان)
پیارے دوستو ! اگر ہماری پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں کیساتھ شیئر ضرور کیجیئے گا ۔ شکریہ

Monday, March 2, 2020

Jung e Khaibar / Hazrat Ali as ki Taqat ke chhoti se jhalak



امیرالمومنین حضرت علیؑ شیر خدا مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر اس دنیا میں تشریف لے آئے ۔ آپ کی والدہ محترمہ جناب فاطمہ بنتِ اسدؑ نے اپنے والد کے نام پر آپ کا نام مبارک حیدر رکھا ۔
آپ کے والد نے آپؑ کا نام علی رکھا ۔ جناب رسول حضرت محمد مصطفیﷺ نے آپ کو اسداللہ کے لقب سے نوازہ اس کے علاوہ مرتضٰی یعنی چنا ھوا ۔ اور کرار یعنی پلٹ پلٹ کر حملے کرنے والا ۔ شیر خدا , مشکل کشاء اور ابو تراب امیرالمومنینؑ کے مشہور القابات ہیں ۔
غزوہ خیبر  میں ایک یہودی نے حضرت علی حیدر کرارؑ پر حملہ کیا اسی دوران آپؑ کی ڈھال گرگئی ۔ تو شیر خدا آگے بڑھ کر قلعے کے دروازے تک پہنچ گئے ۔ اور اپنے ھاتھوں سے قلعے کا پھاٹک اکھاڑ دیا ۔ اور کواڑ کو ڈھال بنا لیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ کواڑ برابر حضرت علی  شیر خداؑ کے ھاتھ میں رھا ۔ حیدر کرارؑکفار سے لڑتے رھے ۔ یہاں تک کہ اللہ ﷻ نے شیرخداؑ کے ھاتھوں خیبر کو فتح فرمایا ۔ یہ کواڑ اتنا وزنی تھا کہ جنگ کے بعدچالیس آدمیوں نے مل کر اسے اٹھانا چاھا مگر وہ ان سے نہ اٹھ سکا ۔
دوستو ! اگر پوسٹ پسند آئے تو اسے دوستوں کےساتھ ضرور شیئر گیجیئے گا ۔ شکریہ

Sunday, March 1, 2020

Hazrat Ali AS Aur Aik Ghulam ka waqia


روایت ہےکہ ایک حبشی غلام جو امیرالمومنین  حضرت علیؑ کا انتہائی مخلص محب تھا ۔

شامت اعمال سے اس نے ایک دفعہ ایک چوری کرلی۔ لوگوں نے اس کو پکڑ کر امیرالمومنین علیؑ کی خدمت میں پیش کردیا ۔ اور غلام نے اپنے جرم کا اقرار بھی کرلیا ۔
    امیرالمومنین حضرت علیؑ نے اس کا ایک ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دے دیا ۔ جب وہ اپنے گھر کو روانہ ھوا تو راستہ میں اس کی ملاقات حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ اور ابن الکراء سے ھو گئی ۔ ابن الکراء نے پوچھا کہ تمہارہ ہاتھ کس نے کاٹا ھے ؟ تو غلام نے کہا کہ امیرالمومنین و یعسوب المسلیمین داماد رسولؐ و زوج بتول نے ۔
ابن الکراء نے کہا کہ امیرالمومنینؑ نے تمہارہ ہاتھ  کاٹ دیا پھر بھی تم اس قدر اعزاز واکرام اور مداح وثناء کیساتھ ان کا نام لیتے ھو ؟
غلام نے کہا تو پھر کیا ھوا , انہوں نے حق پر میرا ہاتھ کاٹا اور مجھے جہنم کے عزاب سے بچا لیا ۔ حضرت سلمان فارسیؓ دونوں کی گفتگو سنی اور  امیرالمومنینؑ سے اس کا تزکرہ کیا ۔
تو امیرالمؤمنینؑ نے اس غلام کو بلواکر اس کا کٹا ھوا ہاتھ اس کی کلائی پر رکھ کر اسے رومال سے چھپا دیا ۔ پھر کچھ پڑھنا شروع کر دیا ۔ اتنے میں ایک آواز سنائی دی کہ رومال ھٹا دو ! جب لوگوں نے رومال ھٹایا تو غلام کا کٹا ھوا ھاتھ کلائی کیساتھ اس طرح جڑ چکا تھا کہ کٹنے کا نشان تک نہیں تھا ۔
پیارے دوستو ! اگر ہماری پوسٹ آپ کو پسند آے تو کمنٹ اور شیئر ضرور کیجیئے گا ۔