خاندان بڑا تھا لیکن روٹی بہرحال ماں ہی کو پکانی پڑتی تھی‘ وہ بیچاری سارا دن گھر کا کام کرتی‘ شام ہوتی تو وہ پورے خاندان کا کھانا بناتی‘ خاندان چولہے کے گرد جمع ہو جاتا‘ ماں توے سے تازہ روٹیاں اتارتی جاتی اور وہ کھاتے جاتے‘ ایک دن ماں کا دھیان بھٹک گیا‘ روٹی توے پر پڑی پڑی جل گئی‘ ماں نے وہ روٹی اتار کر اپنے لئے رکھ لی‘ خاوند دیکھ رہا تھا‘ اس نے فوراً کہا ”یہ روٹی مجھے دے دو“ ماں نے گھبرا کر جواب دیا ”یہ جل گئی ہے‘ میں آپ کےلئے اور-
پکا رہی ہوں“ خاوند نے مسکرا کر کہا ” مجھے دے دو‘ مجھے جلی ہوئی روٹیاں بہت پسند ہیں“ اور ساتھ ہی ہاتھ آگے بڑھا کر ٹوکری سے روٹی اٹھا لی اور مزے سے کھانے لگا‘ کھانا ختم ہوا‘ خاندان اٹھ کر اپنی اپنی چار پائیوں پر چلا گیا‘ خاندان کا چھوٹا بیٹا ہمیشہ سونے سے پہلے باپ کا ماتھا چومتا تھا‘ وہ ماتھا چومنے کےلئے والد کی چارپائی پر گیا تو اس نے سرگوشی میں باپ سے پوچھا ”ابا کیا آپ کو واقعی جلی ہوئی روٹی پسند ہے“ والد نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور آہستہ آواز میں جواب دیا ”بیٹا جلی ہوئی روٹی کس کو پسند ہو گی“ بیٹے نے پوچھا ” پھر آپ نے ماں سے جھوٹ کیوں بولا“ باپ نے جواب دیا ” بیٹا تمہاری ماں سارا دن کام کرتی ہے‘ یہ ہمیں روز اچھا اور مزے دار کھانا بھی پکا کر کھلاتی ہے‘ میں نے زندگی میں اس کے ہاتھوں سے پکی ہوئی سینکڑوں روٹیاں کھائیں‘ میں نے اگر ایک دن جلی ہوئی روٹی کھا لی تو کیا قیامت آ گئی“ باپ نے کہا ”یہ روٹی میں نہ کھاتا تو تمہاری ماں کھاتی اور یہ مجھے منظور نہیں تھا“ یہ واقعہ بچپن کی سنہری یاد بن گیا‘ وہ زندگی میں جہاں بھی رہا‘ وہ جس عہدے پر بھی پہنچا‘ اسے جو بھی پیش کیا گیا اس نے چپ چاپ کھا لیا‘ اس نے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالا اور ہاں وہ جب بھی کھانے کی میز پر بیٹھا‘ اس کے سامنے کھانا رکھا گیا تو اسے اپنی ماں اور باپ دونوں ضرور یاد آئے اور اس نے والد کے یہ الفاظ بھی ضرور دہرائے یہ کون تھا؟ یہ بھارت کے مرحوم صدر عبدالکلام تھے‘ عبدالکلام 27 جولائی کو شیلانگ میں انتقال کر گئے‘ ان کی عمر 84 سال تھی‘ یہ بھارت کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں جن کے انتقال پر ملک بھر میں سات روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا‘ یہ حقیقتاً اس اعزاز کے حق دار تھے‘ یہ 1931ءمیں بھارت کے ایک جزیرے میں پیدا ہوئے‘ جزیرے کا نام ”رامش ورام“ ہے‘ یہ جزیرہ تامل ناڈو میں سری لنکا کے قریب واقع ہے اور یہ سری لنکا کی طرف بھارت کا آخری ٹاﺅن ہے‘ عبدالکلام ”رامش ورام“ کے غریب ترین مسلمانوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ والد کا کل اثاثہ ایک کشتی تھی‘ وہ یہ کشتی یاتریوں کو کرائے پر دے دیتے تھے‘ کشتی کا کرایہ خاندان کا نان نفقہ تھا‘ عبدالکلام کے بڑے بھائی نے بچپن میں پرچون کی دکان بنا لی‘ عبدالکلام کا بچپن اور جوانی عسرت میں گزری‘ وہ تین چار سال کی عمر میں املی کے بیج اکٹھے کرتے تھے‘ سارے دن کی محنت کے بعد انہیں ایک آنہ ملتا تھا‘ وہ بھائی کی دکان پر بھی بیٹھتے تھے اور لوگوں کے گھروں میں اخبار بھی پھینکتے تھے‘ وہ اناج منڈی میں بھی کام کرتے رہے‘
وہ کام کے ساتھ ساتھ پڑھائی کرتے تھے‘ لائق تھے چنانچہ بچپن ہی میں وظیفے ملنے لگے۔ ”رامش ورام“ میں ہندوﺅں کی اکثریت تھی‘ سکول میں بھی مسلمان طالب علم کم تھے‘ اساتذہ مسلمان طالب علموں پر سختی کر کے انہیں سکول سے بھگا دیتے تھے‘ وہ بھی استادوں کے اس ناروا سلوک کا نشانہ بنتے رہتے تھے لیکن ثابت قدمی اور اللہ کی مدد دونوں ان کے شامل حال تھی چنانچہ گاﺅں کے مکھیا کو یہ اطلاع ملی تو اس نے اساتذہ کو ڈانٹ دیا اور یوں استادوں نے انہیں بھی انسان سمجھنا شروع کر دیا‘ وہ ریاضی میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے‘ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ ہوا‘ فیس ہزار روپے تھی لیکن گھر میں اتنی بڑی رقم نہیں تھی‘ عبدالکلام نے اعلیٰ تعلیم کا خیال چھوڑ دیا لیکن پھر ان کی بڑی بہن فرشتہ بن کر آئی‘ اس نے اپنی طلائی چوڑیاں بیچ کر بھائی کی فیس ادا کر دی یوں یہ یونیورسٹی پہنچ گئے لیکن وہاں فیس معافی کےلئے پوزیشن لینا ضروری تھی‘ عبدالکلام اس کے بعد صرف فیس معاف کرانے کےلئے پوزیشنیں لیتے رہے‘ یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھارت کے ایٹمی پروگرام سے وابستہ ہو گئے‘ عبدالکلام نے 1974ءمیں بھارت کو ایٹمی طاقت بھی بنایا اور یہ بھارت میں میزائل پروگرام کی بنیاد رکھ کر ”میزائل مین“ بھی کہلائے‘ یہ 2000ءتک مختلف پوزیشنوں پر کام کرتے رہے یہاں تک کہ 2002ءمیں کانگریس اور بی جے پی نے انہیں بھارت کا صدر بنا دیا‘ یہ 2007ءتک بھارتی صدر رہے۔
عبدالکلام کمال انسان تھے‘ یہ وقت کے انتہائی پابند تھے‘ صبح ساڑھے چھ سے سات بجے کے درمیان کام شروع کرتے تھے‘ ٹی وی نہیں دیکھتے تھے‘ ان کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا‘ اپنی تمام ای میلز چیک کرتے تھے اور جواب بھی دیتے تھے‘ پوری زندگی کام کیا‘ ان کا انتقال بھی شیلانگ میں لیکچر کے دوران ہوا‘ وہ لیکچر دے رہے تھے‘ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا‘ انہیں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ ’فنی گائے‘ یو آر ڈوئنگ ویل‘کہتے کہتے دنیا سے رخصت ہو گئے‘ یہ ذاتی زندگی میں انتہائی سادہ‘ ایماندار اور منکسرالمزاج تھے‘ وہ ایوان صدر میں تین بکسے لے کر آئے اور یہ تین بکسے ہی ان کے ساتھ واپس گئے‘ بھارت کے پہلے مسلمان صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے دور سے ایوان صدر میں رمضان میں افطار ڈنر دیا جاتا تھا‘ ڈاکٹر عبدالکلام صدر بنے‘ ان کی صدارت کا پہلا رمضان آیا‘ مہمانوں کی فہرست دیکھی‘ سٹاف کو بلایا اور کہا ” یہ تمام لوگ خوش حال ہیں‘ افطاری ان کا ایشو نہیں‘ ہم کیوں نہ یہ رقم یتیم خانوں میں تقسیم کر دیں“ سٹاف نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ صدر نے پوچھا ”افطار ڈنر پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے“ جواب ملا ” اڑھائی لاکھ روپے“ ڈاکٹر عبدالکلام نے اڑھائی لاکھ روپے منگوائے‘ ایک لاکھ روپے ذاتی جیب سے ڈالے‘ ساڑھے تین لاکھ روپے کا آٹا‘ دالیں‘ کمبل اور سویٹر منگوائے اور یہ سامان دہلی کے 28 یتیم خانوں میں تقسیم کرا دیا‘ وہ جب تک صدر رہے‘ وہ افطار ڈنر کی رقم اسی طرح یتیم خانوں میں تقسیم کراتے رہے‘
ڈاکٹر عبدالکلام نے مئی 2006ءمیں اپنے پورے خاندان کو ایوان صدر بلایا‘ خاندان کے 52 افراد ان کی دعوت پر دہلی آئے‘ ان میں ان کے90 سال کے بڑے بھائی شامل تھے اور ڈیڑھ سال کی پوتی بھی‘ یہ لوگ آٹھ دن ایوان صدر میں رہے‘ صدر نے انہیں اجمیر شریف بھی بھجوایا‘ یہ لوگ واپس چلے گئے تو صدر عبدالکلام نے اپنے خاندان کی رہائش‘ خوراک اور ٹرانسپورٹ کا بل منگوایا‘ یہ تین لاکھ 52 ہزار روپے بنتے تھے‘ صدر نے ذاتی اکاﺅنٹ سے یہ رقم ادا کر دی‘ انہوں نے چائے کے ایک ایک کپ کے پیسے ادا کئے‘ خاندان اجمیر شریف گیا تھا‘ اس ”زیارت“ کےلئے بھی کوئی سرکاری گاڑی استعمال نہیں ہوئی‘ صدر نے پرائیویٹ بس کا انتظام کیا اور خاندان کو اس بس پر اجمیر شریف بھجوایا‘ صدر نے پانچ برسوں میں صدر کی حیثیت سے 176 دورے کئے لیکن ان دوروں میں غیر ملکی دورے صرف سات تھے‘ باقی 169 دورے اندرون ملک تھے‘ وہ صدر کی حیثیت سے ملک کی ہر ریاست‘ ہر بڑے شہر اور ہر کمیونٹی کے پاس گئے اور ان سے ملاقات کی‘ وہ ہر ہفتے دو تین سیمیناروں میں بھی شریک ہوتے تھے اور وہاں لیکچر دیتے تھے‘ سادگی کا یہ عالم تھا‘ بھارت کے تقریباً تمام اخبارات‘ صحافیوں اور ٹیلی ویژن اینکرز نے ان کی موت پر یہ واقعہ ضرور بیان کیا‘ وہ بطور صدر کسی تقریب کی صدارت کر رہے تھے‘ عبدالکلام نے صدارتی خطبہ دے دیا‘ تقریب ختم ہو گئی‘ وہ رخصت ہونے لگے تو کسی صحافی نے ان سے سوال پوچھ لیا‘
وہ اس وقت تک سٹیج سے اتر چکے تھے لیکن وہ واپس مڑے اور سٹیج کے ایک کونے میں زمین پر بیٹھ گئے‘ ہال میں بیٹھے لوگ فوراً کھڑے ہو گئے لیکن عبدالکلام نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھے بیٹھے صحافی کی بات کا جواب دیا‘ یہ ان کی ذات میں چھپی ہوئی سادگی تھی‘ وہ اس سادگی کا مظاہرہ کرتے وقت پروٹوکول بھی فراموش کر دیا کرتے تھے‘ وہ کس قدر بڑے انسان تھے ¾ آپ اس کا اندازہ ان کے دورہ امریکا سے لگا لیجئے‘ یہ 2011ءمیں امریکا کے دورے پر گئے‘ یہ نیویارک ائیرپورٹ پہنچے تو یہ اپنے لباس‘ انداز اور نشست و برخاست‘ کسی زاویئے سے وی وی آئی پی نہیں لگتے تھے چنانچہ سیکورٹی حکام نے انہیں تلاشی کےلئے روک لیا‘ ڈاکٹر عبدالکلام نے پیشانی پر شکن ڈالے بغیر تلاشی دے دی‘ کلیئر ہوئے اور آرام سے باہر آ گئے‘ امریکی حکام کو اس واقعے کا علم ہوا تو امریکا نے اس رویئے پر بھارت سے تحریری معافی مانگی‘ یہ سلوک دنیا کے بے شمار حکمرانوں کے ساتھ ہو چکا ہے‘ ہمارے اپنے وزراءاور عسکری حکام امریکی ائیرپورٹس پر اس سلوک کا شکار ہو چکے ہیں لیکن امریکا نے معافی صرف عبدالکلام سے مانگی‘ یہ اعزاز بھی صرف انہی کو حاصل ہوا۔
دنیا میں بے شمار سیلف میڈ لوگ حکمران بنتے ہیں‘ دنیا میں ڈاکٹر عبدالکلام جیسے لوگ بھی بے شمار ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی اور کھردری زمین پر گھٹنوں کے بل چل چل کر کامیابی کے آخری زینے تک پہنچے‘ دنیا میں کامیابی انوکھی بات‘ انوکھی چیز نہیں لیکن کامیابی کے بعد اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ کر اپنی سادگی‘ اپنی ایمانداری اور اپنی عاجزی کو قائم رکھنا کمال ہوتا ہے اور ڈاکٹر عبدالکلام کا یہ کمال‘ کمال قسم کا کمال تھا‘ آپ نے درویشوں کو بادشاہ بنتے اور بادشاہوں کو درویش بنتے دیکھا ہو گا لیکن آپ نے کسی درویش کو تخت پر بیٹھ کر اپنی درویشی سنبھالتے نہیں دیکھا ہو گا لیکن ڈاکٹر عبدالکلام‘ ایک معمولی کشتی بان کے صاحبزادے ڈاکٹر عبدالکلام نے یہ کمال کیا‘ یہ تخت کے سامنے کھڑے ہو کر بھی درویش تھے اور یہ تخت پر بیٹھ کر بھی درویش رہے‘ یہ پانی پر چلتی کشتی کی طرح اقتدار کا سفر پورا کر کے دنیا سے چپ چاپ چلے گئے‘ آپ ڈاکٹر عبدالکلام کی یہ ساری داستان پڑھیں اور اس کے بعد اس سوال کا جواب دیں ”کیا بیس کروڑ لوگوں کے اس ملک میں ڈاکٹر عبدالکلام جیسا کوئی ایک شخص موجود ہے‘ کوئی ایک شخص! ہم جس کی سادگی‘ ایمانداری اور درویشی کی قسم بھی کھا سکیں اور ہم جس کے انتقال پر سات روزہ سوگ بھی منا سکیں‘ کوئی ایک! ہاں کوئی ایک ایسا شخص جو بھرپور زندگی گزارنے کے بعد یہ کہتا ہوا اطمینان سے چلا جائے‘ فنی گائے‘ یو آر ڈوئنگ ویل
No comments:
Post a Comment