براٸی کی جڑ
ایک آدمی مخلوق خدا کو اذیّت دینے کی ترکیبیں سوچتا رہتا تھا ۔ ایک دن اس کو شرارت سوجھی اس نے اپنے گھر کے سامنے راستے میں لمبے لمبے کانٹوں والی جھاڑی لگا دی ۔ چند دنوں کے اندر اندر یہ جھاڑی خاصی بڑھ گٸ ہر چند لوگ اس سے بچ بچا کر نکلتے ۔ لیکن پھر بھی کوٸی نہ کوٸی کانٹا پاٶں کو زخمی کر دیتا اور کسی کا دامن تار تار کردیتا ۔ لوگوں نے اس کو بہت ملامت کیا کہ تو نے گھر کے سامنے یہ جھاڑی کیوں اگنے دی ۔ اب تو تکلیف کی انتہا ھو چکی ھے ۔ اسے اکھیڑ دے اس نے مسکرا کرنرمی سے کہا اچھا اکھیڑ دوں گا ۔چند دن اسی طرح اور گزر گۓ یہاں تک کہ اب جھاڑی نے آدھا راستہ گھیر لیا ۔ لوگوں نے مجبور ہو کر حاکم وقت کو شکایت کی ۔ اس نے فورًا اس شخص کو بلایا اسے ملامت کی برا بھلا کہا اور سختی سے اسے حکم دیا کہ اس جھاڑی کو اکھاڑ دو ۔ اس نے کہا ابھی حکم کی تعمیل وہ گی ۔ وہ حاکم وقت سے وعدہ کر کے چلا آیا ۔ اس نے جھاڑی پھر بھی نہ اکھیڑی ۔ اگر کوٸی اس طرف اسکی توجہ دلاتا تو کہہ دیتا کہ آج فرصت نہیں ھے کل یہ کام کروں گا ۔ اسی کل کل پر ٹالتے نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن جھاڑی اتنی بڑھ گٸ کہ اب اس کا ہٹانا آسان نہ رہا ۔ یہ درخت مضبوط ہو گیا اور اس کی جڑیں اتنی گہری ہو گٸیں کہ اب وہ ظالم اسے اکھیڑنے سے عاجزہو گیا ۔ درخت جوان ہوتا گیا اور اسے اکھاڑنے والا کمزور ہوتا گیا ۔
درس حیات
اسی طرح ہماری بری عادتیں اور گناہ کے کام ہیں۔ ان کی اصلاح میں جس قدر دیر کی جاۓ گی ۔ ان کی جڑیں مضبوط تر ہوتی چلی جاٸیں گی ۔ براٸی کو دور کرنے میں سستی سے کام مت لے ۔ ہر بری عادت کو خاردار جھاڑی سمجھ ۔اے! بے حس کاھل اٹھ اور اپنی پرانی بری عادتوں کی اصلاح کے لۓ تلوار اٹھا اور مردانہ وار حملہ کراور مثل حضرت حضرت علی شیرخدا کے اس دروازہ خیبر کو اکھاڑ دے ۔
No comments:
Post a Comment