Friday, August 7, 2020

غرور کا سر نیچا۔سبق آموز کہانی۔gharoor ka sar necha

 غرور کا سر نیچا

سبق آموز کہانی


ایک کسان کا بڑا سا کھیت تھا۔ اور اسی کے ساتھ اس کا پیارا سا گھر بھی بنا ہوا تھا۔ کسان کےپاس کئی جانورتھے،جیسے ہل چلانے کے لیے اور کنویں سے پانی نکالنے کے لیے بیل، کھیت کی حفاظت کے لیے کتے، گھر میں استعمال کے لیے مرغیاں ، دودھ کے لیے بھینس اور بکریاں۔ ان جانوروں کو کسان نے گھر کے پیچھے والے حصے میں ایک چھپر بنا کر رکھا ہوا تھا۔
کسان نے جو مرغیاں پالی ہوئی تھیں، ان میں ایک بہت صحت مند اور خوبصورت مرغا بھی تھا،اس کے سر پر سرخ رنگ کا تاج تھا اور اس کے پر بھی بہت چمکدار سرخ اور سنہری تھے۔ وہ ایسے شان سے چلتا تھا ،جیسے کوئی بادشاہ ہو۔ وہ اپنی خوبصورتی پر فخر کرتا تھا۔ اور بہت زیادہ مغرور ہو گیا تھا۔دوسرے جانوروں کی طرف وہ حقارت سے دیکھا کرتا تھا اور ان کے ساتھ دوستی بھی نہیں کرتا۔ بس اکیلے ہی گھومتا رہتا اور کھیت میں چگتا پھرتا۔
ایک مرتبہ ایک لومڑی گھومتے گھومتے اس کھیت کے پاس سے گزری۔ اس نے کھیت میں صحت مند اور خوبصورت سا مرغا دیکھا تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کس طرح اس مرغے کو کھایا جائے۔اتنے میں مرغے نے لومڑی کو دیکھ لیا۔ اور خطرہ بھانپ کر وہ فوراً اڑ کر قریب کے درخت پر بیٹھ گیا۔ لومڑی سمجھ گئی کہ مرغا کافی سمجھ دار ہے، کوئی ترکیب استعمال کرنی پڑے گی، تب ہی یہ مرغا میرے ہاتھ آ سکتا ہے۔ یہ سوچ کر لومڑی نے مرغے کے ساتھ گفتگو شروع کی۔
’’اے حسین مرغے، میں نے آج تک اتنا خوبصورت مرغا نہیں دیکھا۔ تم تو ساری دنیا میں سب سے خوبصورت مرغے ہو۔ تم نیچے تو آؤ۔ ہم کچھ دیر بات چیت کریں گے.
مرغےنے کہا،’’نہیں بھئی، میں تو نیچے نہیں آؤں گا، اگر میں نیچے آیا تو تم مجھے کھا لوگی‘
لومڑی نے کہا،نہیں بھائی نہیں۔ میں تمہیں کیوں کھانے لگی؟ مگر ہاں،مجھے تم سے دوستی ضرور کرنی ہے۔ تم جو صبح صبح اذان دیتے ہو نا، فجر میں اٹھ کر، وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔
اب جیسے ہی مرغے نے اپنی تعریف سنی، وہ فوراً نیچے اتر آیا۔
لومڑی بہت چالاک تھی۔ پہلے دن تو اس سے خوب گپ شپ لگائی۔ اور اپنے گھر چلی گئی۔ اسی طرح سے وہ تین ،چار دن تک لگاتار آتی رہی۔ اچھی اچھی باتیں کرتی۔ اس طرح اس نے مرغے سے دوستی کرلی۔ مرغا بھی لومڑی سے مانوس ہوتا گیا۔
پھر ایک دن جب مرغا باتوں کے دوران کچھ غافل ہوا، تو لومڑی نے مرغے کو گردن سے پکڑ لیا۔ اور جنگل کی طرف دوڑنے لگی۔
اب مرغے کو اپنی بے وقوفی کا اندازہ ہوا۔ اس نے سب جانوروں کو مدد کے لیے پکارا۔ لیکن کسی نے بھی اس کی پکار کو اہمیت نہیں دی۔ کیوں کہ وہ بھی کبھی ان سے بات چیت نہیں کرتا تھا۔اب وہ سوچنے لگا کہ، جو کچھ کرنا ہے مجھے ہی کرنا ہے۔ لومڑی کے چنگل سے چھٹکارا کیسے پایا جائے۔ وقت کم تھا۔ لومڑی کسی بھی وقت اس کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی۔ اچانک اس کو ایک ترکیب سوجھی۔ وہ لومڑی سے کہنے لگا۔
“بی لومڑی، آپ مجھے لے کر دوڑ لگا رہی ہیں، تو تھک گئی ہوں گی، ایسا کرتا ہوں کہ آپ کو میں ایک کہانی سناتا ہوں، جس سے آپ کا دل بھی بہل جائے گا اور تھکن بھی کم ہوجائے گی‘‘۔
یہ کہہ کر مرغے نے کہانی سنانا شروع کر دی۔
’’ایک جنگل میں بہت بڑا سا شیر رہتا تھا۔ ایک گدھا راستہ بھٹک کر اس جنگل میں آگیا۔ وہاں کی ہری بھری اور نرم نرم گھاس دیکھ کر اس کا دل وہیں لگ گیا۔ اور وہ واپس گھر جانے کے بجائے اسی جنگل میں رہنے لگا۔ روزانہ ہری ہری گھاس کھا کھا کر خوب صحت مند ہوگیا۔ شیر روزانہ گدھے کو دیکھتا اور دل ہی دل میں اس کو کھانے کے منصوبے بنایا کرتا۔
ایک دن موقع دیکھ کر شیر نے اسے پکڑ لیا۔ اب گدھے کی عقل ٹھکانے آ گئی کہ اچھا خاصا میں اپنے مالک کمہار کے پاس رہتا تھا۔ میری اپنی بیوقوفی کی وجہ سے میری جان تو چلی جائے گی۔ اس نے شیر سے بچنے کے لیےاس سے کہا،” آپ تو جنگل کے بادشاہ ہیں۔ بادشاہ سلامت، یہ میرا فرض ہے کہ میں آپ کی خدمت کروں۔ آپ اگر چہ مجھے کھانے کا ارادہ کر ہی چکے ہیں۔ تو اپنی خواہش پوری کر لیں۔ لیکن میں بھی آپ کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا کیجیے کہ آپ مجھے پیچھے سے کھانا شروع کریں اور میں آپ کو گانا سناتا ہوں تاکہ آپ کھانے کے دوران موسیقی سنتے رہیں‘
شیر کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔وہ گدھے کے پیچھے کی طرف پہنچ گیا اور اس کو کھانا شروع کرنے لگا۔ اتنے میں گدھے نے اپنے پیچھے کے دونوں پیروں سے دولتی جھاڑ دی۔ شیر کے منہ پر ایسی زوردار لات پڑی کہ شیر دور جا کر گرا اور اس کا سر ایک پتھر سے ٹکرا گیا، جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا۔ اور گدھا سیدھا اپنے مالک کے پاس پہنچ گیا۔
یہ کہانی سنا کر مرغا کہنے لگا،”آپ ہی بتائیے کہ گدھے جیسا ذہین جانور اور کوئی ہوگا؟ کیسے اس نے اپنی عقل استعمال کر کے اپنی جان بچائی۔
گدھے کی تعریف سن کر لومڑی کو بڑا غصہ آیا۔ وہ کہنے لگی،” ارے بے وقوف ، مجھ سے زیادہ ذہین جانور کوئی ہو سکتا ہے؟
لیکن یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئی تھی کہ وہ منہ کھولےگی تو مرغا منہ سے نکل جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ جیسے ہی لومڑی نے منہ کھولا مرغا زمین پر گر پڑا۔ اور فوراً اڑ کر ایک درخت کی شاخ پر بیٹھ گیا۔ پھر لومڑی سے کہنے لگا،’’ اب بتائیے سب سے زیادہ ذہین کون ہے گدھا، آپ یا میں؟” اس کے بعد مرغے نے سچے دل سے توبہ کرلی اور اپنا غرور چھوڑ کر سب کے ساتھ مل جل کررہے گا۔ کیوں کہ وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھ چکا تھا کہ سب کے ساتھ وہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ اور اکیلے رہنے سے کوئی بھی دشمن حملہ کر سکتا ہے

Tuesday, July 28, 2020

Hazrat Lal Shahbaz Qalandar ra Aur Hinduon ka geroh | حضرت لعل شہباز قلندر اور ہندوؤں کا گروہ

حضرت لعل شہباز قلندرؒ اور ہندوؤں 
کے ایک گروہ کا ایمان اضروز واقعہ
ﺣﻀﺮﺕ ﻻﻝ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ کرامات ہیں 
ان میں ایک یہ بھی بہت مشہور ہے کہ
ﺁﭖ ﺟﺐ سیہوﻥ ﺷﺮﯾﻒ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻭﺯﻧﯽ ﮔﻠﻮ ﺑﻨﺪ ﭘﮍﺍ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ - ﺍﺱ ﮔﻠﻮ ﺑﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﺗﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺮﺍﺷﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﭘﺘﮭﺮ ﭘﯿﻮﺳﺖ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻋﺎﺩﺕ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﯽ ﺁﭖ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﭼﻠﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮ ﮐﻮ ﺟﮭﮑﺎ ﺋﮯ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ -
ﮐﺴﯽ ﻣﺠﻠﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﮔﺮﺩﻥ ﺧﻢ ﮐﺌﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ - ﺭﻭﺍﯾﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ “ ﮐﺎﻧﻮﮔﻦ ﻧﺎﻣﯽ “ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﯾﮏ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﺳﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ “ ﮐﺎﻧﻮﮔﺎ “ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻨﺪﻭ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺗﮭﺎ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﭘﺮﺩﮮ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﻣﻨﺪ ﺗﮭﯽ - ﺁﭖ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﻟﮑﻮﻧﯽ ﮐﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﮔھنٹوں ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻨﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ -
ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺩﻟﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﻀﺮﺕ ﻻﻝ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﺎ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﺮﻟﮯ ﻣﮕﺮ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮ ﮐﻮ ﺟﮭﮑﺎ ﮐﺮ ﺑﯿٹھتے تھے ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﺎ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﺳﮑﯽ 
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮨﻨﺪﻭ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﻭﺣﺸﺖ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻮﻧﯽ ﺳﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻻﻝ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﺒﺪﺭؒ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮔﺮﯼ ، ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮔﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﮨﻨﺪﻭ ﻋﻮﺭﺕ ﺷﺪﯾﺪ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﺲ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﺭﻓﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﻮﭺ ﮐﺮ
ﮔﺌﯽ 
ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﻨﮕﺎﻣﮧ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ - ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﻻﺵ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﺍﺱ ﺑﺪﻧﺼﯿﺐ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﯼ ﺭﺳﻮﻡ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ “ 
ﮐﺎﻧﻮﮔﺎ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ “ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﯾﻮﮞ ﭼﺎﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮔﯽ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻻﻝ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ 
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮨﻨﺪﻭ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﻣﻨﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻤﻨﺪ ﺗﮭﯽ -
ﺟﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﮐﮧ
“ ﻣﺠھ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺍﻣﺎﻧﺖ
ﮨﮯ ، ﺟﮩﺎﮞ ﭼﺎﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﻮ -“
ﺍﺏ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﻻﺵ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﻻﺵ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ نہ سکی ﻻﺵ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻭﺯﻧﯽ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ - ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺑﯿﺲ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻧﮯﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﻻﺵ ﺍٹهاﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺯﻭﺭ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﻣﮕﺮ ﻻﺵ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﭙﮏ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ -
ﺣﻀﺮﺕ ﻻﻝ ﺷﮩﺒﺎﺯﻗﻠﻨدر ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﻻﺵ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ “ -
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﻨﺪﻭﺋﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻟﻮ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﻻﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮫ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﯽ -
ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﺟﻮ ﯾﮧ ﺳﻨﺎ ﺗﻮ ﺩﻧﮓ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ - ﮐﺎﭨﻮ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﻥ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺗﻤﺎﻡ ﮨﻨﺪﻭﺋﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﮑﺘﮧ ﻟﮓ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ - ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺑﻮﮐﮭﻼ ﺋﮯ ﺭﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﮯ
ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺧﺮ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﯿﺎ ﺳﺮﺯﺩ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﺍﺳﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎﺩﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻟﮯ ﺟﺎ ﺳﮑﻮﮞ - ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﻼﻝ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ -
“ ﺑﺎﺕ ﺛﻮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﯽ ﻧﮩﯿﮟ - ﺑﺎﺕ ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ “
ﮨﻨﺪﻭﺋﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ - ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ؟
ﺟﺲ ﭘﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻻﻝ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﻧﮯ ﺳﮑﻮﺕ ﺁﻣﯿﺰ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ “ - ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﻭ ﺗﻢ ﺳﺐ ﺍﺳﮯ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻭﮔﮯ ﺗﻮ ﻻﺵ ﺍﭨﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ “
ﮨﻨﺪﻭﺋﻮﮞ ﻧﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺍﺭﺗﮭﯽ ﺍٹهنے ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ -
ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺳﮩﻮﻥ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮨﻨﺪﻭ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺳﮩﻮﻥ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ -
عرس کے موقع پر جو مہندی اٹھتی ہے اس عورت کی قبر سے اٹھائی جاتی ہے اور مختلف علاقوں سے گزرتی ہوئی لال شہباز کی درگاہ پر آتی ہے -
حضرت لال شہباز قلندر کو دنیا سے پردہ کے ہوئے آٹھ سو سال سے زیادہ ہو گئے لیکن آپ کا فیض روحانی اب بھی جاری ہے -
آپ کی یادگاریں اب بھی تابندہ و زندہ ہیں -
ﺣﻀﺮﺕ ﻻﻝ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﯾﮧ ﮐﺮﺍﻣﺎﺕ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ “ ﮐﺎﻧﻮﮔﺎ “ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﻨﺪﻭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺖ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﺮ ﻣﺸﺮﻑ ﺑﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺳﻼﻡ ﺳﻨﺪﮪ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﺘﺎ ﮔﯿﺎ۔

Saturday, July 18, 2020

اندر کی حقیقت / andar ki Haqeqat

استاد نے کلاس میں داخل ہوتے ہی اپنے سب اسٹوڈنٹس سے پوچھا؛
آپ سب کی نظروں میں کونسی چیز انسان کو خوبصورت بناتی ہے؟
سب شاگردوں نے مختلف جواب دیئے
کسی نے کہا: خوبصورت آنکھیں
کسی نے کہا: خوبصورت چہرہ
کسی نے کہا: بڑا قد
کسی نے کہا: سفید رنگ
سب کے جواب سن کے استاد نے بیگ سے دو گلاس نکالے
ایک شیشے کا نہایت خوبصورت اور نفیس گلاس
ایک مٹی کا گلاس
استاد نے دونوں گلاسوں میں کوئی الگ الگ چیزیں ڈال دی اور کہا
میں نے شیشے کے گلاس میں زہر ڈالا ہے۔
اور مٹی کے گلاس پینے کا پانی۔
آپ کونسا گلاس پینا چاہتے ہیں؟
سب شاگردوں نے یک زبان ہو کر کہا: مٹی کا گلاس
استاد نے کہا
جب آپکو ان گلاسوں کی اندر کی حقیقت معلوم ہوئی تو پھر آپکی نظروں میں ان کی ظاہری خوبصورتی کی کوئی اہمیت نہیں رہی اسی طرح ہمیں بھی انسان کی اندر سے حقیقت معلوم کرنی چاہیئے۔
کیونکہ بہت سے خوبصورت لباس ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر انسان نہیں ہوتے۔
بہت سے خوبصورت چہرے اور جسم ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر دل حیوانات سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔

Friday, July 17, 2020

افسوس کہ تم شعہ ہو / Afsos k tum shia ho

افسوسﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ ...
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ شیعہ ﮨﻮﮞ ( ﭼﺮﺍ ﺷﯿﻌﻪ ﻫﺴﺘﻢ؟ )
ایران کے نامور مفسر قران علامہ محسن قرائتی فرماتے ہیں:
ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ سیمینار ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﺮﻧﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ جنابﻗﺮﺁﺋﺘﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﺑﺎﺕ۔۔۔ !
ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﻮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳاتید ﯾﻮﯾﻨﻮﺭﺳﭩﯽ ﮨﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ، یونیورسٹی ﺗﮩﺮﺍﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﺁﻧﺎ
ﺟﺎﻧﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﻣﺸﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ اھل علم ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﻮﮞ،
ﮐﮩﺎ: ﯾﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﮨﯿﮟ۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔۔
ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ۔۔
ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﻭﮨﺎﺑﯽ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: ﺍﭼﮭﺎ۔۔۔ ﻭﮨﺎﺑﯽ۔۔۔۔!
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮨﺎﺑﯽ ﮨﻢ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﺮ ﻭ ﻣﺸﺮﮎ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﺗﻮ ﺑﮭﺘﯿﺮﮮ ﻗﺘﻞ ﮐﯿﮯ ، ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ
ﺗﻤﺎﭼﮧ ﺗﮏ ﻧﻬﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ، ﺗﻤﺎﻡ ﮐﻔﺮ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ، ﭘﻮﺭﯼ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﭙﮍ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻥ ﻭﮨﺎﺑﯽ
ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻧﮯ۔۔۔۔
ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻏﯿﺮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﯿﻨﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ، ﮨﻢ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﭘﺮﻭﺍﺯ کر ﻟﯿﮟ ﮔﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻮﺍﺋﯽ ﺟﮩﺎﺯ کرﺗﺎ ﮨﮯ۔۔۔۔ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺑﺤﺚ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ
ﺍﻭﺭ ﺑﺲ۔۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮨﺎﮞ وہابی پروفیسرز میں ﺍﯾﮏ قرانیﺑﺤﺚ ﮐﯽ ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎﺋﯿﮟ، ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔۔۔
ﺍﯾﮏ وہابی مولوی ﺗﮭﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ
ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ۔۔۔۔ ﺍﺣﺴﻨﺖ۔۔۔ﻣﮕﺮ ﺣﯿﻒ ( ﺍﻓﺴﻮﺱ ) ﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ طے نہیں ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﮮ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ اب تک ﮐﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﮯ، ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﻧﮧ ﺷﯿﻌﻮﮞ
ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻧﮧ ﺳﻨﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ۔۔۔ ﻗﺮﺁﻥ ﺗﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺭﺩ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﮯ، ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﮯ۔۔۔۔
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺟﻮ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻧﻌﺮﮦ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔۔ افسوس ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ،۔۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺗﻮ ﻣﻨﺤﺮﻑ ﮨﮯ۔۔۔ ﯾﮧ افسوس ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﮍﮦ ﻏﺮﻕ
ﮨﮯ، ۔۔۔ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﮞ۔۔۔
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺳﮯ ثابتﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﮨﻮ، ۔۔
ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺟﻌﻠﯽ ﮨﻮ۔۔۔
ﺷﻌﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺷﺎﻋﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺗﺨﯿﻼﺕ
ﮨﯿﮟ۔۔۔
ﺑﻠﮑﮧ آیات ﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﻮﮞ۔۔۔
ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﯿﮟ نیچا ﮐﺮﻭﮞ، ﺑﻠﮑﮧ ﻣقصد ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺤﻘﯿﺮ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﻭﮞ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ
ﺗﺤﻘﯿﺮ ﮐﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ : افسوس ﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ۔۔۔
ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ طریقہ ﻫﮯ ﮐﮧ افسوس ﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ ، ۔۔۔۔۔
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ منٹ ﻣﯿﮟ شیعہ کی حقانیت کو قران سے ثابت کروں ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﺎﮞ ﺑﻮﻟﻮ۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ۔۔۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ۔۔۔
ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ۔۔۔۔
ﺟﺐ ﺗﮏ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ (ص ) ﺗﮭﮯ ﻧﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﺗﮭﮯ ﻧﮧ ﺳﻨﯽ۔۔ ھمارے
ﺭﮨﺒﺮ ﺧﻮﺩ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﺗﮭﮯ ، ﺭﺳﻮﻝ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﻋﻤﻞ ﺗﮭﮯ۔۔ ﺟﺐ
ﺭﺳﻮﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺩﻭ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ،
ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻭﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻘﮧ ﮐﻮ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ ﺳﮯ ﻟﯿﺎ، ﻭﮦ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮩﻼﺋﮯ۔۔ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﻗﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻘﻪ ﭼﺎﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻟﻮﮔﻮ ﮞ ﺳﮯ ﻟﯽ۔۔۔۔
ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﺷﺎﻓﻌﯽ، ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ، ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻦ ﺍﻧﺲ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ ﺳﮯ ﻓﻘﮧ ﻟﯽ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ دعوی ﭘﺮ ﺗﯿﻦ ﺁﯾﺎﺕ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺑﻄﻮﺭ ﺩﻟﯿﻞ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔۔۔
ﺍﻭﻝ : ﻗﺮﺁﻥ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ : ﯾﻄﮩﺮﮐﻢ ﺗﻄﯿﮩﺮﺍ،
ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ تمہارے ان ﭼﺎﺭ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ۔۔۔بلکہ جنکی ہم پیروی کرتے ہیں صرف وہ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ ﯾﻄﮩﺮﮐﻢ ﺗﻄﮩﯿﺮﺍ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮨﯿﮟ۔۔
ﺩﻭﻡ : ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ پہلی اسلامی صدی ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ، ﺟﺒﮑﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻓﻘﮧ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﻭﮞ امام ابوحنیفہ,مالک.,شافعی اور حنبل دوسری صدی ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺭﺣﻢ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ
ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ۔۔۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ صدی ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔
ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ۔۔ ﺍﻟﺴﺎﺑﻘﻮﻥ ﺍﻟﺴﺎﺑﻘﻮﻥ ﺍﻭﻟﺌﮏ ﮬﻢ ﺍﻟﻤﻘﺮﺑﻮﻥ۔۔
جو پہلے ایمان لائے وہ اللہ کے قریب ہیں.
ﺳﻮﻡ؛ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﮨﻠﺒﯿﺖ(ﻉ ) ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔نہ تمہارے چارو.
ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ۔۔۔ ﻓﻀﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﺎﮨﺪﯾﻦ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻘﺎﺋﺪﯾﻦ۔۔۔ ﺟﻮ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﻻﺗﺮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺷﮩﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺋﮯ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﻮﮞ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺩﻟﯿﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ۔۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺁﯾﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﻮﮞ۔۔۔
لہذا ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺖ ﮐﮩﻨﺎ : افسوس ﮐﮧ ﺗﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﮯ۔۔۔۔
( ﺍﻭﺭ ﺯﺑﺎﻥ ﺣﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﮧ ﭘﻮﭼھا ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺩﻟﯿﻞ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﺳﻨﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ )
یوں جب سب کے سامنے مذھب شیعہ ﺣﻖ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﭘﻮﺭﮮ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮭﭽﺎ ﮐﮭﭻ ﺑﮭﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ، ﻟﻮﮒ ﭼﮭﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﮑﻨﮯ ﻟﮕﮯ۔۔۔




ﺣﺠﺠﺘ

امید کا دیا ! امید کا حوصلہ


کہتے ہیں کہ جب سب کچھ ختم بھی ہو جائے تو امید کا دامن نہ چھوڑو۔۔۔
پر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ امید کا دیا آخری ہچکی لے رہا ہوتا ہے اور کچھ لوگ پھونک مار کر اُسے بھی بجھا دیتے ہیں۔۔۔
اگر ہم حوصلہ دینے والے بن جائیں اور اس امید کے خشک ہوتے دیے میں تھوڑا سا حوصلے کا تیل ڈال دیں تو اسکی لو پھر سے تیزی سے بھڑک اُٹھے گی۔۔۔جس سے آپکی اپنی زندگی بھی کئ گنا زیادہ روشن اور چمکدار ہوجائےگی۔۔
آپکا کوئی ایک جملہ، ایک مثبت قدم، ایک دوستانہ تھپکی، ایک جاندار مسکراہٹ، ایک پر عزم یقین کسی کی بجھتی ہوئ زندگی میں شدت سے منتظر ہے۔۔۔
حوصلہ دینے والے بن کر دیکھیے اللہ کی رحمت آپکے ساتھ ہوگی 


Thursday, July 16, 2020

یہودی اور مجوسی/ ناقابل فراموش واقعہ

ایک دفعہ کا زکر ہے کہ ایک غریب یہودی ایک مال دار مجوسی کا ہم سفر ہوا. مجوسی کہ پاس اونٹ اور اسباب سفر کافی مقدار میں تھا مجوسی نے یہودی سے پوچھا کہ تیرا عقیدہ اور مزہب کیا ہے
یہودی نے جواب دیا کے میرا عقیدہ یہ ہے جہاں کا ایک مالک ہے میں اس کی عبادت کرتا ہو اور اسی سے پناہ چھتا ہو جو میرے عقیدہ سے موفق ہو میں اس پر احسان کرتا ہوں اور جو میرے عقیدہ سے مخالف ہوں میں اس کا خون بہانہ جایز سمجہتا ہوں
یہودی نے مجوسی سے پوچھا تمہارا عقیدہ کیا ہے؟ جواب میں مجوسی نے کہا کہ میں اپنے آپ سے اور کائنات میں تمام موجودات سے محبت کرتا ہوں
میں کسی کہ ساتھ برای نہیں کرتا ہوں میں دوست اور دشمن دونوں کہ ساتھ بہلای کرتا ہوں اگر کوئی مجھ سے برای کرے میں اس پر احسان کرتا ہوں اس کی وجہ یہی ہے کہ تمام کائنات کا خالق وہی ہے جو سب کا خالق ہے یہودی نے کہا تو بلکل جھوٹ کہہ رہا ہے میں بھی تیرے جیسا انسان ہوں جبکہ تیرے پاس اونٹ اور اسباب سفر موجود ہے اور میں پیادہ پا ہوں تو نے نہ تو اپنی خوراک میں سے مجھے کچھ دیا اور نہ اپنے اونٹ پر مجھے سوار کیا. مجوس اونٹ سے نیچہے اترا اور دسترخوان بچہایا اور یہودی کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور یہودی کی خواہش کے متابق اسے اپنی اونٹ پر سوار کیا تا کے اس کی تکھن اتر سکہے کچھ راستے تک ایک دوسرے کہ ساتھ سفر کرتے رہے اچانک یہودی نے اونٹ کو زور سے تازیانہ مارا اور اونٹ کو بگھا کر لے گیا مجوس نے اسے آواز دی کہ میں نے تمہارے ساتھ بہلائی کی اور تم مجھے بیابان میں اکیلے چھوڑ کر جا رہے ہو کیا میرے احسان کا ندلا یہی ہے لیکن مجوس کو ان باتوں کا اثر نہ ہوا یہودی نے زور سے کہا کہ میں تمہیں پہلے سے ہی بتا چکہا ہوں کہ جو بھی میرے عقیدہ کا مخالف ہوں میں اس کا خون بہانا جائیز سمجہتا ہوں
مجوس نے آسمان کی طرف روخ کرتے ہوئے کہا خدایا میں نے اس شخص کے ساتھ نیکی کی ہے اور اس نے میرے ساتھ برای کی ہے تو ہی اسے برای کا بدلا دے یہ کہہ کر وہ راستے کی طرف چل پڑا ابھی اس نے توڑا راستہ تہ کیا تھا کا اچانک دیکھا کہ اس کا اونٹ ایک طرف کہڑا ہوا ہے اور یہودی زمین پر گرا ہوا ہے یہودی کا بدن زخمی ہے اور وہ درد سے کراہ رہا ہے مجوس خوش ہوا اور وہ اپنے اونٹ کو لے کر جانے لگا یہودی کی چیخ کی پہنچ بلند ہوئی اور اس نے رو رو کر کہا اے نیکی کرنے واالا شخص تجھے احسان کا اجر مل چکھا ہے اور مجہے میرے برای کا بدلہ مل گیا ہے اب تو اپنے عقیدہ سے انحراف نہ کر اور مجھ سے نیکی کر مجھے اس بیابان میں تنہا نہ چھوڑ مجوسی کو اس پر رحم آگیا اس نے یہودی کو اونٹ پر سوار کیا اور اسے اس کی منزل مقصود پر لا کر چھوڑ دیا

Wednesday, July 15, 2020

حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور ایک سوالی کا ایمان افروز واقعہ


ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺪ ﺯﺍﺩﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﯾﺎﺣﻀﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ غرﯾﺐ ﺳﯿﺪ ﺯﺍﺩﮦ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﻥ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻮجھ ﮨﮯ۔ ﺳﺎﺩﺍﺕ ﮔﮭﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺯﮐﻮٰۃ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﯾﻨﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﯾﮟ-ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﺩﻡ ﺳﮯ ﺑﻼ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺬﺭ ﻭ ﻧﯿﺎﺯ ﺁﺋﯽ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﻣﯿﮟ؟ﺗﻮ ﺧﺎﺩﻡ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺳﯿﺪﯼ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺁﺋﯽ
ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ-ﺁﭖ ﻧﮯ ﺳﯿﺪ ﺯﺍﺩﮮ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯽ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﮧ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮐﺮﮮ ﻭﮦ ﺩﺳﺖ ﻏﯿﺐ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﮮ ﮔﺎ-ﻣﮕﺮ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﯿﺎﺯ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ- ﺳﯿﺪ ﺯﺍﺩﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﻮﯾﮟ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺪﺩ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﯽ ﻣﯿﺮﯼ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻃﻠﺐ ﮐﯽ. ﺣﻀﺮﺕ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺩکھ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎتھ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ-ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭼﻨﺪ ﭘﻞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﻭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻌﻠﯿﻦ ﻻ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺩﯾﺌﮯﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﺱ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻥ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ کچھ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﯿﺪ ﺯﺍﺩﮦ ﺟﻮﺗﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ, ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎتھ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﮐﯽ ﺳﻨﯿﺌﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﺪ ﺗﻐﻠﻖ ﮐﺴﯽ ﺟﻨﮕﯽ ﻣﮩﻢ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﯿﺮ ﺧﺴﺮﻭ ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﮐﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺑﻞ ﻗﺪﺭ ﺷﺎﻋﺮ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﺳﻠﻄﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﮯ ﺣﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻗﺼﯿﺪﮦ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺳﺎﺕ ﻻﮐﮫ ﭼﯿﺘﻞ (ﺳﮑﮧ ﺭﺍﺋﺞ ﺍﻟﻮﻗﺖ) ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ۔ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﻔﺮﭘﺮ ﺟﺐ ﺍﺑﮭﯽ ﻟﺸﮑﺮ ﺳﻠﻄﺎﻧﯽ ﺩﮨﻠﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﭘﮍﺍﺅ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﻮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﻣﯿﺮ ﺧﺴﺮﻭ ﭼﻼ ﺍﭨﮭﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯﻣﺼﺎﺣﺐ ﺑﻮﻟﮯ ﺍﻣﯿﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺗﻮ ﮐﯿﻠﻮﮐﮭﮍﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﮨﻠﯽ ﺳﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﻭﺭ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻧﮑﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺁ ﮔﺌﯽ؟؟ ﻣﮕﺮ ﺍﻣﯿﺮ ﺧﺴﺮﻭ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺍﺋﮯ ﺗﮏ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ کچھ ﺭکھ ﮐﺮ ﺳﻮﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻢ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﺳﮯ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ؟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﻮﻻ ﮨﺎﮞ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺷﺘﯿﺎﻕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ؟ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺑﻮﻻ ﻭﮦ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﻭﺭ کچھ ﺗﻮ ﺩﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺟﻮﺗﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻣﯿﺮ ﺧﺴﺮﻭ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻏﯿﺮﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﮯ ﻧﻌﻠﯿﻦ ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﭙﮍﺍ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﯾﺌﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﺍ ﭼﻮﻣﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﯿﭽﮯ ﮔﺎ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﻣﯿﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﮨﻮ، ﺍﻣﯿﺮ ﺧﺴﺮﻭ ﺑﻮﻟﮯ ﻣﺬﺍﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﺎﺕ ﻻکھ ﭼﯿﺘﻞ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻟﮯ ﻟﻮ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ ﮐﮯ ﻧﻌﻠﯿﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ۔ ﺍﮔﺮ ﭼﺎﮨﻮ ﺗﻮ ﺩﮨﻠﯽ ﭼﻠﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﺭﻗﻢ ﺍﻭﺭ ﺩﮮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺳﺎﺕ ﻻکھ ﭼﯿﺘﻞ ﮐﺎ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﭼﮑﺮﺍ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺲ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻮ ﭼﻨﺪ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﻣﯿﺮ ﺧﺴﺮﻭ ﻧﮯ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﺎﺕ ﻻکھ ﭼﯿﺘﻞ ﺩﯾﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎتھ ﻣﯿﮟ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺗﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮏ ﻧﮧ ﮐﺮﮮﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻣﯿﺮ ﺧﺴﺮﻭ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﻣﺮﺷﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮧ ﺟﻮﺗﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭧ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﮯ ﺑﮍﮬﮯ ﭼﻠﮯ ﺁ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﺭﻭ ﻗﻄﺎﺭ ﺭﻭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ،ﺧﺴﺮﻭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﻻﺋﮯ ﮨﻮ؟ ﺍﻣﯿﺮ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺳﯿﺪﯼ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻧﻌﻠﯿﻦ ﻻﯾﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﮐﺘﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﯾﺪﮮ؟ﺣﻀﺮﺕ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﻔﺴﺎﺭ ﮐﯿﺎ؟ ﺳﺎﺕ ﻻکھ ﭼﯿﺘﻞ ﺍﻣﯿﺮ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺑﺎ" ﻋﺮﺽ ﮐﯽ۔ ﺑﮩﺖ ﺍﺭﺯﺍﮞ ﻻﺋﮯ ﮨﻮ۔ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺍﻟﮩﯽٰ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﮯ !ﺟﯽ ﺳﯿﺪﯼ ﺳﺎﺕ ﻻکھ ﭼﯿﺘﻞ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﮨﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺳﯿﺪ ﺯﺍﺩﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻧﻌﻠﯿﻦِ ﻣﺮﺷﺪ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﺷﺪ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ۔

Tuesday, July 14, 2020

ایک ظالم بادشاہ کا سبق اموز واقعہ /aik zalim badshah ka sabaq amooz waqia

ایک ظالم اور بادشاہ کا سبق آموز واقعہ
ایک ظالم اور جابر بادشاہ تھاوہ اتنا سخت تھا کہ اُس کے خوف سے پوراشہر تھر تھر کانپتا تھا ۔اس کی ہیبت کے قصے ہر جگہ مشہور تھے ایک دن اس کا پیارا اور لاڈلا کتا مر گیا،بادشاہ کو بہت افسوس ہوا اور اس نے اعلان کرادیا کہ کتے کی موت پر سب لوگ میرے دربار میں حاضر ہوںاگلے دن جب کتے کودفن کرنے کا وقت آیا تو پورا دربارکھچا کھچ لوگوں کے ہجوم سے بھرا پڑا تھا ۔
بادشاہ یہ سب دیکھ کر مغرور ہوگیا اور اس نے سوچاکہ وہ لوگوں میں کتنا مقبول ہے ،جب بادشاہ کی اپنی وفات ہوئی اور جنازے کا وقت آیاتو ایک آدمی بھی شہر سے شریک نہیں ہوابادشاہ یہ سب نہیں جانتا تھا کیونکہ وہ تو اسی ہی خوش فہمی میں مرا تھا کہ سب اس کو بہت پسند کرتے ہیں،کسی کی عزت کرنا الگ بات ہے اور کسی کے ڈر یا رعب کی وجہ سے اس کی ہربات ماننا بلکل مختلف امر ہ
کوشش یہی کرنی چاہئے کہ لوگوں کا دل جیتا جائے اور ان کی مدد کرکے ان کے دل میں گھر کیا جائے،عزت ایک ایسا جز بہ ہے کہ جب انسان کسی کی عزت کرتا ہے تو مرتے دم تک اس کیلئے کچھ بھی کرسکتاہے۔۔!!!عزت ،پیار محبت، شفقت اور نرمی سے حاصل کی جاتی ہے ناکہ سختی اور ڈانٹ ڈپٹ سے ۔

کسان کی بادشاہ کو نصیحت

کسان کی بادشاہ کو نصیحت
 ملکِ غور کا ایک بادشاہ بہت ہی سخت گیر اور لالچی تھا۔ وہ غریب کسانوں کے گدھے بیگار میں پکڑوا لیتا تھا اور غریبوں کو ان کے سہارے سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیتا تھا۔ موت ہی ان گدھوں کو مشقت سے چھڑاتی تھی۔ ایک بار یہ ظالم بادشاہ شکار کے لیے گیا تو جنگل میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور بھٹک کر ایک گاؤں میں جا پہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ ایک کسان اپنے موٹے تازے گدھے کی ٹانگ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ کسان کُرد تھا اور شکل و صورت سے اچھا خاصا مردِ معقول نظر آتا تھا۔ بادشاہ اسے یہ عجیب حرکت کرتے ہوئے دیکھ کر بہت حیران ہوا اور اس سے سوال کیاکہ تو یہ ظلم کیوں کر رہا ہے؟ کرد نے جواب دیا، کیا تو نے حضرت خضرؑ کا وہ واقعہ نہیں سنا جس میں کشتی کے تختے توڑ دینے کا ذکر آتا ہے؟ بادشاہ بولا سنا تو ہے لیکن گدھے کی ٹانگ توڑنے سے اس کا کیا تعلق؟یہ بات سن کر کرد نے جوش اور خفگی کے لہجے میں بادشاہ کے اس ظلم کے بارے میں بتایا جو وہ گدھے بیگار میں پکڑنے کی صورت میں کر رہا تھا اور کہا کہ جس طرح حضرت خضرؑ نے کشتی میں عیب ڈال کر بیگار میں پکڑے جانے والے کو بچا لیا تھا، اسی طرح میں اپنے گدھے کی ٹانگ توڑ کر اس کی جان بچا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے بادشاہ کو سخت سست کہا۔ اسے کیا خبر تھی جسے وہ مطعون کر رہا ہے، وہ اس کے روبرو کھڑا ہے۔ بادشاہ کو غصہ تو بہت آیا لیکن تنہا ہونے کی وجہ سے خاموش رہا۔ صبح ہوئی تو لشکری اسے تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچ گئے اور ذرا سی دیر میں جنگل میں منگل کا سماں نظر آنے لگا۔ بادشاہ کھانے سے فارغ ہو چکا تو اسے کرد کسان کا خیال آیا اور اپنے سپاہی بھیج کر اسے پکڑوا بلوایا۔ کرد کو معلوم ہوا کہ وہ بادشاہ کے منہ پر اسے برا بھلا کہتا رہا ہے تو اس نے اندازہ کر لیا کہ اب میری جان نہ بچے گی۔ لیکن موت کے خوف سے وہ ہراساں نہ ہوا بلکہ اس یقین نے اس کے دل میں جرأت پیدا کر دی۔ اس نے سوچا، جب مرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس ظالم کو کھری کھری سناؤں۔ چنانچہ اس نے بے خوف ہو کر اپنی گفتگو کے آئینے میں ظالم کو اس کا گھناؤنا چہرہ دکھایا اور کہا کہ تیرے خوشامدی امیروں، وزیروں نے تجھے تیرے بارے میں جو کچھ بتایا ہے، وہ ٹھیک نہیں۔ پورا ملک تیری خود غرضی اور لالچ کی وجہ سے پریشان ہے اور ہر شخص تیرا ذکر برائی سے کرتا ہے۔ مردِ دانا ہے تو رکھ احوال پر اپنے نظرمنکشف ہو جائیں گے تجھ پر ترے عیب و ہنردوست تیری مدح کرتے ہیں تو یہ ہرگز نہ جانہو گا مبنی برحقیقت تجھ سے ان کا ہر گمانان کی باتوں میں غرض کے ساتھ ہو گا جھوٹ بھیتیرے عیبوں کو ہنر ثابت کریں گے یہ سبھیقلب کو تسکین ملتی ہے خوشامد سے ضرورلیکن اس سے خوش وہی ہوتے ہیں جو ہیں بے شعوریہ کہیں بہتر ہے اپنے نکتہ چیں کی بات سن جو ترے کردار کا پرتو ہیں وہ حالات سنکرد کی باتیں اگرچہ تلخ تھیں لیکن چونکہ ان میں صداقت تھی اس لیے بادشاہ کے دل پر ان کا اثر ہوا اور غفلت کا نشہ اس کے دماغ سے اتر گیا۔ اس نے اسی وقت توبہ کی اور کسان کو انعام و اکرام سے نوازا۔ حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں بے حد مؤثر انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ ظالم اور سخت گیر شخص کبھی سچی عزت حاصل نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بات بھی بتائی ہے کہ اگر نصیحت کرنے والا ڈر اور لالچ سے بالا ہو کر نصیحت کرے تو اس کی بات کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے۔

Friday, June 19, 2020

Hazrat Imam kafir sadaq as ka aik hindustani tabeb se Munazra | حضرت امام جعفر صادقؑ کا ہندوستانی طبیب سے مناظرہ


امام جعفر صادقؑ جب منصور کے دربار میں پہونچے تو وہاں ایک طبیب ہندی ایک کتاب طب ہندی منصور کو پڑھ کر سنا رہا تھا، آپ بھی بیٹھ کر خاموشی سے سُننے لگے۔ جب وہ فارغ ہوا تو آپ کی طرف متوجہ ہوا۔ اور منصور سے پوچھا، یہ کون ہیں۔منصور نے جواب میں کہا ، یہ عالمِ آلِ محمد ہیں۔
طبیب ہندی آپ سے مخاطب ہوا اور بولا، آپ بھی اس کتاب سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، نہیں۔ اُس نے کہا، کیوں؟ آپنے فرمایا جو کچھ میرے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اس نے کہا، آپ کے پاس کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہم گرمی کا سردی اور سردی کا گرمی سے۔ رطوبت کا خشکی سے اور خشکی کا رطوبت سے علاج کرتے ہیں۔ اور جو کچھ رسول خدا نے فرمایا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور انجام کار خدا پر چھوڑتے ہیں۔
طبیب ہندی نے کہا وہ کیا ہے؟ امام:۔ فرمودئہ رسول یہ ہے کہ شِکم پر بیماری کا گہرا اثر ہوتا ہے اور پرہیز ہر بیماری کا علاج ہے جسم جس چیز کا عادی ہو گیا ہو اُس سے اُس کو محروم نہ کرو۔
طبیب ہندی:۔ مگر یہ چیز طِب کے خلاف ہے امام:۔شاید تمہارا یہ خیال ہے کہ میں نے یہ علم کتاب سے حاصل کیا ہے طبیب ہندی:۔اسکے علاوہ بھی کیا کوئی صورت ہے
امام:۔میں نے یہ علم سوائے خدا کے کسی سے حاصل نہیں کیا۔ لہذا بتلاو ہم دونوں میں کس کا علم بلند و برتر ہے۔
طبیب: کیا کہاجائے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید میں آپ سے زیادہ عالم ہوں۔ امام:۔اچھا میں تم سے کچھ سوال کرسکتا ہوں؟
طبیب:۔ ضرور پوچھئے۔
امام:۔یہ بتاو کہ آدمی کی کھوپڑی میں کثیر جوڑ کیوں ہیں،سپاٹ کیوں نہیں طبیب:۔کچھ غور و خوض کے بعد ، میں نہیں جانتا
امام:۔اچھا پیشانی پر سر کی طرح بال کیوں نہیں ہیں طبیب:۔میں نہیں جانتا امام:۔پیشانی پر خطوط کیوں ہیں طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔آنکھوں پر اَبرو کیوں قرار دیئے گئے ہیں۔ طبیب:۔میں نہیں جانتا امام:۔ آنکھیں بادام کی شکل کی کیوں بنائی ہیں طبیب:۔معلوم نہیں امام:۔ناک دونوں آنکھوں کے درمیان کیوں ہے طبیب:۔مجھے معلوم نہیں امام:۔ ناک کے سوراخ نیچے کی طرف کیوں ہیں طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔ہونٹ، منھ کے سامنے کیوں بنائے ہیں طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔ آگے کے دانت باریک و تیز اور داڑھیں چپٹی کیوں ہیں طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔مرد کے داڑھی کیوں ہے طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔ہتھیلی اور تلوے میں بال کیوں نہیں ہیں طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔ناخُن اور بال بے جان کیوں ہیں۔ طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔دِل صنوبری شکل کا کیوں ہے طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔پھیپھڑے کے دو حصے کیوں ہیں اور متحرک کیوں ہیں۔ طبیب:۔معلوم نہیں امام:۔جگر گول کیوں ہے طبیب:۔معلوم نہیں امام:۔گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف کیوں ہے۔ طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔ میں خدائے داناوبرتر کے فضل سے ان تمام باتوں سے واقف ہوں۔ طبیب:۔فرمایئے میں بھی مستفید ہوں امام:بہ غور سُن
جوابات
۱) ۔آدمی کی کھوپڑی میں مختلف جوڑ اس لئے رکھے گئے ہیں تا کہ دردِ سر اُسکو نہ ستائے
۲) ۔سر پر بال اِس لئے اُگائے تاکہ دماغ تک روغن کی مالِش کا اثر جاسکے،اور دماغ کے بُخارات خارج ہو سکیں، نیز سردی و گرمی کا بہ لحاظِ وقت لباس بن جائے
۳) ۔پیشانی کو بالوں سے خالی رکھا تا کہ آنکھوں تک نور بے رکاوٹ آسکے۔
۴) ۔ پیشانی پر خطوط اِس لئے بنائے ہیں تا کہ پسینہ آنکھوں میں نہ جائے۔
۵) ۔آنکھوں کے اوپر اَبرواِسلئے بنائے تا کہ آنکھوں تک بقدر ضرورت نور پہنچے۔ دیکھوجب روشنی زیادہ ہو جاتی ہے تو آدمی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چیزوں کو دیکھتا ہے۔
۶) ۔ناک دونوں آنکھوں کے درمیان اس لئے بنائی ہے تاکہ روشنی کو برابر دو حصوں میں تقسیم کردے تاکہ معتدل روشنی آنکھوں تک پہونچے
۷) ۔آنکھوں کو بادام کی شکل اس وجہ سے دی تاکہ آنکھوں میں جو دوا سلائی سے لگائی جائے اُس میں آسانی ہو اور میل آنسووں کے ذریعہ بہ آسانی خارج ہو سکے۔
۸) ۔ناک کے سوراخ نیچے کی طرف اِسلئے بنائے تاکہ مغز کا میل وغیرہ اس سے خارج ہو اور خوشبو بذریعہ ہوا دماغ تک جائے اور لقمہ منھ میں رکھتے وقت فورًامعلوم ہو جائے کہ غذا کثیف ہے یا لطیف۔
۹) ۔ہونٹ، مُنھ کے سامنے اِسلئے بنائے کہ دماغ کی کثافتیں جو ناک کے ذریعہ آئیں منھ مین نہ جاسکیں۔ اور خوراک کو آلودہ نہ کردیں۔
۱۰) داڑھی اسلئے بنائی تاکہ مرد اور عورت میں تمیز کی جاسکے ورنہ بڑا شرمناک طریقہ اختیار کرنا پڑتا۔
۱۱) ۔آگے کے دانت باریک اور تیز اِس لئے بنائے گئے تاکہ غذا کو کاٹ کرٹکڑے ٹکڑے کر سکیں اور داڑھوں کو چوڑے(چَپٹے) اِس لئے بنائے تاکہ وہ غذا کو پیس سکیں۔
۱۲) ۔ہاتھوں کی ہتھیلیاں بالوں سے اِس لئے خالی رکھیں تاکہ قوتِ لامسہ(چھونے کی قوت) صحیح کام انجام دے سکے۔
۱۳) ۔ناخُن اور بالوں میں جان اِس لئے نہیں ، کہ انکے کاٹنے میں تکلیف کا سامنا باربار نہ ہو۔
۱۴) ۔دِل صنوبری شکل اِسلئے دی گئی تاکہ اسکی باریک نوک پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انکی ہوا سے ٹھنڈی رہے۔
۱۵) ۔پھیپھڑوں کو دو حصوں میں اس وجہ سے تقسیم کیا گیا ہے کہ دِل دونوں طرف سے ہوا حاصل کر سکے۔
۱۶) ۔جِگر کو گول اِسلئے بنایا ہے تاکہ معدہ کی سنگینی اپنا بوجھ اس پر ڈال کر زہریلے بُخارات کو خارج کر دے۔
۱۷) ۔گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف اسلئے ہے تاکہ آدمی بہ آسانی را ہ چل سکے، ورنہ راستہ چلنا مشکل ہو جاتا۔ اِنسان کے جسم میں ہڈیاں کتنی ہیں؟
طبیبِ نصرانی نے بڑے اِحترام سے امام سے درخواست کی کہ اِنسان کے جسم کی بناوٹ کی کچھ وضاحت فرمائیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے اِنسان کو بہ لحاظ ہیکل اِستخوانی دو سو آٹھ حصوں سے ترکیب دیا ہے۔ اِنسان کے جسم میں بارہ اعضاء ہیں ۔ سر، گردن، دو( ۲) بازو، دو کلائی، دو ( ۲) ران،دو( ۲) ساق (پنڈلیاں) اور دو پہلو اور تین سو ساٹھ( ۳۶۰) رگیں ، ہڈیاں،پٹھے، اور گوشت۔۔ رَگیں جسم کی آبیاری کرتی ہیں۔ھڈیاں بدن کی حفاظت کرتی ہیں۔اور گوشت ہڈیوں کا تحفظ کرتا ہے۔ اور اس کے بعد پَٹھے گوشت کی حفاظت کرتے ہیں۔۔
ہر ہاتھ میں اِکتالیس ہڈیاں ہیں۔پینتیس ہڈیوں کا ہتھیلی اور انگلیوں سے تعلق ہے۔اور دو کا تعلق کلائی سے اور ایک کا تعلق بازو سے اور تین کا کندھے سے تعلق ہے۔ ہر پیر میں تینتالیس ہڈیاں پیدا کی ہیں۔ جن میں پینتیس قدم میں اور دُو پنڈلی میں اور تین زانو میں اور ایک ران میں اور دو نشیمن گاہ میں یعنی بیٹھنے کی جگہ میں۔۔ ریڑھ کی ہڈی میں اَٹھارہ ٹکڑے ہیں۔ گردن میں آٹھ، سر میں چھتیس ٹکڑے ہیں
ا ور منھ میں اٹھائیس یا بتیس دانت ہیں۔ اِس زمانہ میں جو ترکیب اِنسان کی ہڈیوں کو شمار کیا گیا ہے اُس میں اور فرمانِ امام میں اگر تھوڑا فرق ہو تو وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ بعض ان دو ہڈیوں کو جو بہت ہی متصل ہیں ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔ امام علیہ السلام نے صدیوں قبل بغیر کسی آلہ اور فن معلومات کے تحقیق طِبی فرمائی ہے وہ آپ کے علم امامت کا بَیّن ثبوت ہے۔ دورانِ خون یہ مسئلہ جو اطباء مشرق نے بعد میں معلوم کیا ہے رازی کا بیان ہے کہ اسکو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے صدیوں پہلے کتاب توحیدِ مفضل میں بیان فرما دیا ہے

Wednesday, May 6, 2020

Hazrat Imam Ali as ka ek zanda Admi ka namaz e janaza parhane ka Dilchasp waqia | Islamic Story in Urdu/Hindi |


حضرت علی ؑ علم دین اور دیگر علوم کے علاوہ علم غیب پر بھی فوقیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کے مخالفین اور دشمن اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ علیؑ علم غیب کیسے جانتے ہیں

Thursday, April 30, 2020

Friday, March 20, 2020

Hazrat Syed sakhi Sarwar RA biography. Halat o waqiat.حضرت سخی سرورؒ



ڈیرہ غاز ی خان کو  اگرچہ ڈویژن کا   درجہ حاصل ہےلیکن بلحاظ ترقی بےحد پسماندہ ہے۔
یہاں کی زبان سرائیکی ہے جس میں بےحد مٹھاس اور شیرینی ہے۔ لوگ سادہ‘ ملنسار‘ مودّب اور محبت کرنے والے ہیں۔ شاید یہ نمایاں خصوصیات ان بزرگانِ دین کی تعلیمات کا ثمر ہیں۔ جو اس علاقےمیں بطرف جنوب پچاسی میل کےفاصلے پر کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ غلام فرید بجانب مشرق اڑتالیس میل دور تونسہ شریف میں حضرت سلیمان تونسوی اور مغرب کی سمت پچیس میل دور حضرت سید احمد سلطان سخی سرور شہید آسودہ خواب ہیں۔
سخی سرور میں صرف ایک ہی چھوٹا سا ٹیڑھا میڑھا بازار ہے جس کےشمالی کنارے پر بسوں کا اڈا اور جنوبی سرے پر حضرت سلطان سخی سرور شہید کےمزارِ اقدس کی عمارت کا صدر دروازہ کھلتا ہے۔ اس کےاوپر دو منزلہ کمرے بنےہوئے ہیں اندر داخل ہوں تو سامنےکشادہ صحن اور تین کمرے ہیں جن میں سےایک میں مزارِ مبارک پر چڑھائےگئے پرانےغلاف رکھےہیں۔ اس کےساتھ چھوٹےسےتاریک کمرے میں ہر وقت شمع روشن رہتی ہے۔ دیوار کےساتھ اونچا سا تھڑا ہے جس پر مصلیٰ بچھا ہوا ہے اس پر حضرت صاحب عبادت و ریاضت کیا کرتےتھے۔ اس سےملحقہ کشادہ کمرے میں دائیں کونےمیں آپ کا مزار ہے۔ اس کےقریب چھوٹےسےچبوترے پر ہر وقت چراغ روشن رہتا ہے۔ مزارِ اقدس کےقدموں کی طرف نیچےزمین کےاندر ڈیڑھ دو بالشت چوڑا سوراخ ہے جو قبرمبارک کےاندر جاتا ہے۔ زائرین اس میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرتےہیں۔ بعض اوقات کسی کو کوئی چیز مل بھی جاتی ہے تو وہ خود کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہے۔ مقامی لوگوں کےسوا آٹھ صدیاں قبل جب حضرت سلطان سخی سرور شہادت کےبعد یہاں دفن کئےگئےتو اس ویرانےمیں آپ کی بیوی اور دو بچے بھی ساتھ تھے۔ آپ کی بیوی نےبارگاہِ خداوندی میں فریاد کی کہ اب مجھےکس کا سہارا ہے تو حکم ایزدی سےاس جگہ سے زمین شق ہو گئی جس میں آ پکےبیوی بچےسما گئے۔ اس واقعہ کی کسی مستند حوالےسےتصدیق نہیں ہو سکی لیکن اتنا ضرور ہےکہ آپ کی محترمہ بیگم کی قبر یہیں پر ہے۔
حضرت سلطان سخی سرور شہید کا شجرہ نسب
حضرت سید احمد سخی سرور لعلاں والا بن سید زین العابدین بن سید عمر بن سید عبدالطیف بن سید شیخار بن سید اسمٰعیل بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن زین العابدین بن حضرت حسین بن حضرت علی۔
مقبرے کےکمرےاور صحن کےبائیں جانب مسجد ہے۔ جس کےتین محراب ہیں، اور کمرے کے ہر کونےمیں آپ کےچار یاروں سخی بادشاہ سید علی شہید، سیدنور شہید، سید عمر شہید اور سید اسحاق شہید کےاسمائےگرامی رقم ہیں۔
مسجد کےبالمقابل مشرقی سمت اونچی سی جگہ پر دو بہت بڑی دیگیں پڑی ہیں جن میں منوں اناج پک سکتا ہےکہتےہیں جب حضرت سخی سرور حیات تھےتو بغیر آگ جلائےان دیگوں میں جو چاہتے پکا لیا کرتےتھے۔
بجانب مغرب جدھر آپ کا چہرہ انور ہے آپ کےچار یاروں کی قبور ہیں۔ حضرت سید علی شہید اور حضرت سیدنور شہید کی پختہ قبریں ایک پہاڑی کی چوٹی پر ہیں جبکہ حضرت سیدعمر شہید اور حضرت اسحاق شہید کی کچی قبور اس کےبالمقابل دوسری پہاڑی کی چوڑی پر ہیں۔ چشم باطن سےدیکھنےوالوں کو یوں احساس ہوتا ہےجیسےآپ اپنےیاروں کی طرف دیکھ رہےہوں۔
حضرت سید احمد سلطان سخی سرور شہید کےوالد بزرگوار حضرت زین العابدین سرزمین پاک و ہند تشریف لانےسےقبل بائیس سال سےروضہ رسول اطہر کی خدمت کرتےچلے آ رہے تھے۔ ایک روز سیدالانبیاء وختم المرسلین نےعالم خواب میں ہندوستان جانےکا حکم دیا۔ آپ نےفوراً رخت سفر باندھا اور ضلع شیخوپورہ میں شاہکوٹ میں قیام کیا۔ یہ 520 ہجری (1126ء) کا واقعہ ہے۔ آپ ہر وقت یادِ الٰہی میں مشغول رہتےتھے۔ گزر اوقات کیلئےآپ نےزراعت کےعلاوہ بھیڑ بکریاں بھی پال رکھی تھیں۔ دو سال کےبعد آپ کی اہلیہ محترمہ بی بی ایمنہ جنت الفردوس کو سدھاریں۔ ان کےبطن سےتین لڑکےحضرت سلطان قیصر، حضرت سید محمود اور حضرت سید سہرا تھی۔ شاہکوٹ کا نمبردار پیرا رہان آپ کا مرید تھا۔ اس نےاپنی کھوکھر برادری سےمشورہ کےبعد اپنی بڑی دختر بی بی عائشہ کو آپ کے عقد میں دے دیا۔ ان کےبطن سے524 ہجری (1130ء) میں حضرت سید احمد سلطان پیدا ہوئےاور پھر ان کے بھائی حضرت عبدالغنی المعروف خان جٹی یا خان ڈھوڈا نےجنم لیا۔
آپ بچپن سے ہی بڑے ذہین و فہمیدہ تھے۔ اکثر اوقات اپنے والد مکرم سےشرعی مسائل سیکھتےرہتےتھے۔ ان دنوں لاہور میں مولانا سید محمد اسحاق ظلہ العالی کےعلم و فضل کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ کو علوم ظاہری کےزیور سےآراستہ کرنےکیلئےلاہور بھیج دیا گیا۔ حضرت مولانا کی محبت و تربیت و تعلیم کی بدولت آپ ان تمام صلاحیتوں اور صفات سےمتصف ہو گئےجو کسی عالم دین کا خاصہ ہوتی ہیں۔ تحصیل علم کےبعد واپس آکر باپ کا پیشہ اختیار کیا لیکن زیادہ تر وقت یادِ الٰہی میں ہی بسر ہوتا تھا۔ ظاہری علوم کےہم آہنگ علوم باطنی حاصل کرنےکا جذبہ اشتیاق سینےمیں کروٹیں لینےلگا جس میں روزافزوں طغیانی آتی گئی۔ آپ کےوالد محترم نےجب اپنےاس ہونہار بیٹےکا رجحان دیکھا تو اس طرح تربیت فرمانےلگےجیسےمرشد مرید کی تربیت کرتا ہے۔ لیکن دل کی خلش برقرار رہی۔ چاہتےتھےکہ سلوک و معرفت کی راہوں پر گامزن ہوں۔ علم لدنی سےمالامال ہوں اور کسی صاحب حال بزرگ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوں۔
جب 535 ہجری (1141ء) میں آ پ کےوالد گرامی نےرحلت فرمائی اور شاہکوٹ میں ہی مدفن ہوئےتو آپ کےخالہ زاد بھائی ابی۔ جودھا ساون اور مکو نےآپ کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ روزافزوں ان کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہوں نے پیرا رہان کی وفات کےبعد زرخیز زمین اپنےپاس رکھ لی اور بنجر ویران اراضی آپ کےحوالےکر دی لیکن اللہ کےکرم سےوہ زرخیز و شاداب ہو گئی تو وہ بڑے نالاں وافسردہ ہوئےاور حسد کی آگ میں جلنےلگے۔ وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتےتھےکہ حیلے بہانے سے آپ کو نقصان پہنچائیں۔
باپ کےوصال کے بعد آپ کی شادی گھنو خاں حاکم ملتان کی بیٹی بی بی بائی سے ہو گئی۔ امراءروساء نےنذرانے پیش کئے۔ جب آپ دلہن کو گھر لائےتو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مائی عائشہ نےگھی کےچراغ جلائےاور خوب خوشیاں منائیں۔ اس پر آپ کےخالہ زاد بھائی سیخ پا ہو گئےاور دل ہی دل میں آپ کو بےعزت کرنےکےمنصوبےبنانےلگے۔ انہوں نےلاگیوں اور بھانڈ میراثیوں کو بہلا پھسلا اور لالچ دےکر بھیجا کہ وہ حضرت سید احمد سلطان کو بدنام و شرمسار کریں اور ترکیب یہ بتائی کہ اگر وہ سیر دے تو وہ سواسیر مانگیں۔ انہوں نےایسا ہی کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنےنیک بندوں کی خود حفاظت فرماتا ہے۔ آپ نےنہ صرف لاگیوں‘ بھانڈوں‘ میراثیوں کو ہی نہیں بلکہ غربا و مساکین اور محتاجوں کو بےشمار دولت جہیز کا سامان اور دیگر اشیاء سے خوب نوازا اس دن سےآپ سخی سرورر‘لکھ داتا‘ مکھی خاں‘ لالانوالہ‘ پیرخانو‘ شیخ راونکور وغیرہ مختلف القابات سےنوازے جانےلگے۔ لیکن سخی سرور کا لقب ان سب پر حاوی ہو گیا۔ آپ کےخالہ زاد بھائی بھلا یہ کب برداشت کر سکتےتھے لہٰذا ان کی آتش حسد و انتقام مزید بھڑک اٹھی۔ اسی اثناء میں آپ کی والدہ محترمہ اور سوتیلے بھائی سید محمود اور سید سہر راہی ملک عدم ہوکر شاہکوٹ میں ہی دفن ہوئےتو آپ دل برداشتہ ہو گئے۔ کسی مردحق کے ہاتھ میں ہاتھ دینےکا جذبہ بڑی شدومد سےبیدار ہو گیا۔ چنانچہ تلاش حق کیلئے آپ بغداد شریف پہنچےجو ان دنوں روحانی علوم کا سرچشمہ تھا۔
آپ نےسلسلہ چشتیہ میں حضرت خواجہ مودود چشتی سلسلہ سہروردیہ میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی اور سلسلہ قادریہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ علیہم سےخرقہ خلافت حاصل کیا۔
بغداد شریف سےواپسی پر آپ نےچند دن لاہور میں قیام فرمایا اور پھر وزیرآباد کےقریب سوہدرہ میں دریائےچناب کےکنارے یادِ الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ عشق، مشک اور اللہ کےاولیاءکبھی چھپےنہیں رہتے۔ یہ الگ بات ہےکہ عام دنیادار انسان ان کےقریب ہو کر بھی فیضیاب نہ ہو۔ آپ کی بزرگی و ولایت کا چرچا چار دانگ عالم میں ہو گیا۔ ہر وقت لوگوں کا ہجوم ہونےلگا۔ جو بھی حاجت مند درِ اقدس پر پہنچ جاتا تہی دامن و بےمراد نہ لوٹتا۔ آ پکو جو کچھ میسر آتا فوراً راہ خدا میں تقسیم فرما دیتے۔ ہر جگہ لوگ آپ کو سخی سرور اور سختی داتا کےنام نامی اسم گرامی سےیاد کرنےلگے۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونےوالےدنیا کےساتھ دین کی دولت سےبھی مالامال ہونےلگے۔ دن بدن آپ کےمحبین، معتقدین اور مریدین میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
دھونکل میں بھی آپ نےچند سال قیام فرمایا۔ جہاں آپ نےڈیرہ ڈالا وہ بڑی اجاڑ و ویران جگہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نےاپنےفضل و کرم سےوہاں پانی کا چشمہ جاری فرما دیا۔ مخلوق خدا یہاں بھی جوق درجوق پہنچنےلگی۔ میلوں کی مسافت طےکر کےلوگ آگےاور اپنےدکھوں، غموں اور محرومیوں کےمداوا کے بعد ہنسی خوشی واپس لوٹ جاتےایک دن دھونکل کےنمبردار کا لڑکا مفقود الخبر ہو گیا۔ نمبردار نےحاضر خدمت ہو کر عرض کیا تو ارشاد فرمایا ‘مطمئن رہو شام تک لوٹ آئےگا‘۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
وطن مالوف سےنکلےکئی سال ہو گئےتھے۔ لہٰذا واپس شاہکوٹ تشریف لےگئے۔ اس اثناء میں آپ کی شہرت و بزرگی کےچرچے پورے ہندوستان میں پہنچ چکےتھے۔ سینکڑوں میلوں کا سفر طےکر کےلوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتےتھے۔ آپ کےخالہ زاد بھائیوں کو آپ کی یہ شہرت و مرتبہ ایک آنکھ نہ بھایا۔ اپنےلئےخطرہ محسوس کرنےلگے۔ لہٰذا ان کی دیرینہ دشمنی پھر عود کر آئی۔
جب خالہ زاد بھائیوں کی عداوت انتہا کو پہنچ گئی تو آپ نقل مکانی فرما کر ڈیرہ غازی خان تشریف لےگئےاور کوہِ سلیمان کےدامن میں نگاہہ کےمقام پر قیام فرمایا اور عبادتِ الٰہی میں مصروف ہو گئے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج کل آپ کا مزار اقدس ہے اور اب سخی سرور کےنام سےمشہور ہے۔ لوگوں کا یہاں بھی اژدہام ہونےلگا۔ ہر مذہب و ملت کےلوگ آپ کےدرِ دولت پر حاضر ہونےلگے۔ کئی ہندو، سکھ اور ان کی عورتیں بھی آپ کےعقیدت مندوں اور معتقدوں میں شامل تھیں جو سلطانی معتقد کہلاتےتھےاور اب بھی پاک و ہند میں موجود ہیں۔
آپ کےارادت مند ‘عقیدت مند‘ معتقد اور مریدین بےشمار تھےلیکن ان میں سےچار اصحاب خاص الخاص تھے۔ یہ چار یاروں کےنام سےمشہور تھے۔ انہیں آپ سے بےحد عشق تھا۔ آپ بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔
آپ کےخالہ زاد بھائیوں نےآپ کو یہاں بھی سکھ کا سانس نہ لینےدیا۔ انہوں نےاپنی قوم کےان گنت لوگوں کو آپ سے بدظن کر دیا اور جم غفیر لےکر آپ کو شہید کرنےکیلئے چل پڑے۔ ان دنوں آ پ کےسگے بھائی حضرت سید عبدالغنی المعروف خان ڈھوڈا نگاہہ سے بارہ کوس دور قصبہ ودود میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہتےتھے۔ ان کےخادم نےجب خالہ زاد بھائیوں کےعزائم کےبارے میں اطلاع دی تو تن تنہا ان کےمقابلے پر اتر آئےاور بہتر اشخاص کو حوالہ موت کرنےکےبعد جامِ شہادت نوش کیا۔ اس کےبعد وہ سب لوگ نگاہہ پہنچے۔ اس وقت حضرت سید احمد سلطان سخی سرور نماز پڑھنےمیں مصروف تھے۔ چند ایک خادم اور چاروں یار موجود تھے۔ نماز سےفراغت کے بعد جب آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ گھوڑی پر سوار ہو گئے۔ بھائیوں نےحملہ کیا تو آپ نے بھی جنگ شروع کر دی اور یاروں سمیت مقام شہادت سےسرفراز ہوئے۔ دم واپسی آپ نےارشاد فرمایا کہ میرےیاروں کو مجھ سے بلند مقام پر دفن کیا جائے۔ چنانچہ حسب الارشاد ایسا ہی کیا گیا۔
22رجب المرجب 577 ہجری (1181ء) کو تریپن سال کی عمر میں جب آپ کی شہادت ہوئی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہنچ گئے۔ لاکھوں محبین کےقلوب ورد و غم اور ہجر و فراق سےفگار ہوگئے۔ مختلف محبین و مریدین نےآپ کےمزارِ اقدس کی تعمیر میں وقتاً فوقتاً حصہ لیا لیکن بستی سخی سرور کےمکینوں کےبقول مزار کی عمارت کی تعمیر بادشاہ بابر نےاپنی نگرانی میں کرائی تھی اور اس ضمن میں اس نےایک مہر شدہ دستاویز بھی لکھی تھی۔ مغرب کی جانب ایک بہت بڑا حوض بنوایا تھا تاکہ اس میں پانی جمع رہے۔ مسجد کی محراب کےنیچےاور سطح زمین سےتقریباً پچاس فٹ اونچی بابا گوجر ماشکی سیالکوٹی کی قبر ہے کہتے ہیں کہ آپ پہاڑ پر سے پانی لا کر نمازیوں کو وضو کرایا کرتےتھے۔
حضرت سخی سرور شہید کی یاد میں ہر سال مختلف شہروں میں میلہ لگتا ہے جس میں بےشمار لوگ حصہ لیتے ہیں۔ پشاور میں اسےجھنڈیوں والا میلہ کہتےہیں۔ دھونکل میں جون، جولائی کےمہینےمیں بہت بڑے میلےکا اہتمام ہوتا ہے۔ لاہور میں اسےقدموں اور پار کا میلہ کہا جاتا ہے اور ڈیرہ غازی خان میں آ پ کا عرس گیارہ اپریل کو بڑی دھوم دھام سےمنایا جاتا ہے۔ اس میں لوگ دور و نزدیک سےشریک ہو کر اپنی محبتوں اور عقیدتوں کے چراغ روشن کرتےاور فیضیاب ہوتےہیں۔


Monday, March 16, 2020

Bakhel Aur Faqeer ka Qissa | اردو فیچر

ایک فقیر کسی بخیل کے دروازے پر گیا اور صدا لگائی کہ بابا ایک روٹی دے دے۔ اگر تر نہ ہو تو روکھی سوکھی ہی مجھے قبول ہے۔ بخیل نے کہا یہاں روٹی کہاں۔ یہ کوئی نانبائی کی دکان تھوڑی ہے۔ فقیر نے کہا اچھا روٹی نہ سہی چربی کا ایک ٹکڑا ہی دے دے۔ بخیل نے جھڑک کر کہا، ’’جا اپنا کام کر یہ کوئی قصاب کی دکان ہے۔‘‘ فقیر نے کہا، ’’اچھا پھر ایک مٹھی آٹا ہی دے دے۔‘‘بخیل نے کہا،’’ ارے آٹا یہاں کہاں۔ میں نے کوئی چکی لگا رکھی ہے؟‘‘ فقیر نے کہا، ’’بابا مشک سے پانی ہی پلا دے۔‘‘ بخیل نے لال لال دیدے نکال کر کہا، ’’جا اپنی راہ لے۔ یہاں کوئی نہر تھوڑی بہہ رہی ہے۔‘‘ غرض فقیر جو سوال کرتا، بخیل اس کو ٹال دیتا اور فقیر پر پھبتیاں کستا۔ جب فقیر مایوس ہو گیا تو وہ دامن اٹھا کر بخیل کے گھر میں گھس گیا اور ایک طرف بیٹھ کر پاخانہ کرنے لگا۔ بخیل نے کہا، ’’ہائیں ہائیںیہ کیا حرکت ہے؟‘‘ فقیر نے تڑاق سے جواب دیا، ’’ذرا ٹھہر جا میں اس ویرانے میں رفع حاجت سے فارغ ہو لوں۔ جب یہاں زندگی کا کوئی سامان ہی نہیں تو پھر یہ ویرانہ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ میں یہاں پاخانہ نہ کروں۔‘‘

Allah Walon ke kam ! baba ghulam Fareed RA ka waaia ! اردو فیچر

ایک دفعہ بابا غلام فریدؒکے پاس ان کا ایک مرید آیا
وہ لوہار کا کام کرتا تھا ۔وہ مرید آپکی خدمت میں
قینچی تیار کر کے لایا ۔ اور ادب سے آپکی خدمت مییں
پیش کی اور عرض کرنے لگا کہ بابا جی یہ میں اپنے رزق
حلال سے آپ کے لئے  تحفہ لایا ہوں ۔ بابا جی نے جب قینچی دیکھی تو مسکرائے اور فرمایا ۔ بیٹا ۔درویش تحفہ رد نہیں کیا کرتے ۔ البتہ جب اگلی مرتبہ آنا تو ایک سوئی لیتے آنا ۔ جب وہ مرید دوسری دفعہ حاضر ھوا تو ایک سوئی لے کر آیا ۔ اور آپکی خدمت میں پیش کی تو آپ نے فرمایا ۔ کہ اس دفعہ ھم نے تمہارہ تحفہ خوشی سے قبول کیا ۔ اور پسند بھی کیا کیونکہ قینچی کا کام کاٹنا اور سوئی کا کام سینا ھوتا ھے ۔ درویش کاٹنے کا نہیں سینے کا کام کرتے ہیں ۔ درویشوں کا کام محبت اور الفت کے رشتوں کی بنیاد رکھنا ھوتا ھے ۔

Sunday, March 15, 2020

Doctor Abdul Kalam | story of Doctor Abdul Kalam |


خاندان بڑا تھا لیکن روٹی بہرحال ماں ہی کو پکانی پڑتی تھی‘ وہ بیچاری سارا دن گھر کا کام کرتی‘ شام ہوتی تو وہ پورے خاندان کا کھانا بناتی‘ خاندان چولہے کے گرد جمع ہو جاتا‘ ماں توے سے تازہ روٹیاں اتارتی جاتی اور وہ کھاتے جاتے‘ ایک دن ماں کا دھیان بھٹک گیا‘ روٹی توے پر پڑی پڑی جل گئی‘ ماں نے وہ روٹی اتار کر اپنے لئے رکھ لی‘ خاوند دیکھ رہا تھا‘ اس نے فوراً کہا ”یہ روٹی مجھے دے دو“ ماں نے گھبرا کر جواب دیا ”یہ جل گئی ہے‘ میں آپ کےلئے اور-
پکا رہی ہوں“ خاوند نے مسکرا کر کہا ” مجھے دے دو‘ مجھے جلی ہوئی روٹیاں بہت پسند ہیں“ اور ساتھ ہی ہاتھ آگے بڑھا کر ٹوکری سے روٹی اٹھا لی اور مزے سے کھانے لگا‘ کھانا ختم ہوا‘ خاندان اٹھ کر اپنی اپنی چار پائیوں پر چلا گیا‘ خاندان کا چھوٹا بیٹا ہمیشہ سونے سے پہلے باپ کا ماتھا چومتا تھا‘ وہ ماتھا چومنے کےلئے والد کی چارپائی پر گیا تو اس نے سرگوشی میں باپ سے پوچھا ”ابا کیا آپ کو واقعی جلی ہوئی روٹی پسند ہے“ والد نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور آہستہ آواز میں جواب دیا ”بیٹا جلی ہوئی روٹی کس کو پسند ہو گی“ بیٹے نے پوچھا ” پھر آپ نے ماں سے جھوٹ کیوں بولا“ باپ نے جواب دیا ” بیٹا تمہاری ماں سارا دن کام کرتی ہے‘ یہ ہمیں روز اچھا اور مزے دار کھانا بھی پکا کر کھلاتی ہے‘ میں نے زندگی میں اس کے ہاتھوں سے پکی ہوئی سینکڑوں روٹیاں کھائیں‘ میں نے اگر ایک دن جلی ہوئی روٹی کھا لی تو کیا قیامت آ گئی“ باپ نے کہا ”یہ روٹی میں نہ کھاتا تو تمہاری ماں کھاتی اور یہ مجھے منظور نہیں تھا“ یہ واقعہ بچپن کی سنہری یاد بن گیا‘ وہ زندگی میں جہاں بھی رہا‘ وہ جس عہدے پر بھی پہنچا‘ اسے جو بھی پیش کیا گیا اس نے چپ چاپ کھا لیا‘ اس نے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالا اور ہاں وہ جب بھی کھانے کی میز پر بیٹھا‘ اس کے سامنے کھانا رکھا گیا تو اسے اپنی ماں اور باپ دونوں ضرور یاد آئے اور اس نے والد کے یہ الفاظ بھی ضرور دہرائے یہ کون تھا؟ یہ بھارت کے مرحوم صدر عبدالکلام تھے‘ عبدالکلام 27 جولائی کو شیلانگ میں انتقال کر گئے‘ ان کی عمر 84 سال تھی‘ یہ بھارت کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں جن کے انتقال پر ملک بھر میں سات روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا‘ یہ حقیقتاً اس اعزاز کے حق دار تھے‘ یہ 1931ءمیں بھارت کے ایک جزیرے میں پیدا ہوئے‘ جزیرے کا نام ”رامش ورام“ ہے‘ یہ جزیرہ تامل ناڈو میں سری لنکا کے قریب واقع ہے اور یہ سری لنکا کی طرف بھارت کا آخری ٹاﺅن ہے‘ عبدالکلام ”رامش ورام“ کے غریب ترین مسلمانوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ والد کا کل اثاثہ ایک کشتی تھی‘ وہ یہ کشتی یاتریوں کو کرائے پر دے دیتے تھے‘ کشتی کا کرایہ خاندان کا نان نفقہ تھا‘ عبدالکلام کے بڑے بھائی نے بچپن میں پرچون کی دکان بنا لی‘ عبدالکلام کا بچپن اور جوانی عسرت میں گزری‘ وہ تین چار سال کی عمر میں املی کے بیج اکٹھے کرتے تھے‘ سارے دن کی محنت کے بعد انہیں ایک آنہ ملتا تھا‘ وہ بھائی کی دکان پر بھی بیٹھتے تھے اور لوگوں کے گھروں میں اخبار بھی پھینکتے تھے‘ وہ اناج منڈی میں بھی کام کرتے رہے‘
وہ کام کے ساتھ ساتھ پڑھائی کرتے تھے‘ لائق تھے چنانچہ بچپن ہی میں وظیفے ملنے لگے۔ ”رامش ورام“ میں ہندوﺅں کی اکثریت تھی‘ سکول میں بھی مسلمان طالب علم کم تھے‘ اساتذہ مسلمان طالب علموں پر سختی کر کے انہیں سکول سے بھگا دیتے تھے‘ وہ بھی استادوں کے اس ناروا سلوک کا نشانہ بنتے رہتے تھے لیکن ثابت قدمی اور اللہ کی مدد دونوں ان کے شامل حال تھی چنانچہ گاﺅں کے مکھیا کو یہ اطلاع ملی تو اس نے اساتذہ کو ڈانٹ دیا اور یوں استادوں نے انہیں بھی انسان سمجھنا شروع کر دیا‘ وہ ریاضی میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے‘ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ ہوا‘ فیس ہزار روپے تھی لیکن گھر میں اتنی بڑی رقم نہیں تھی‘ عبدالکلام نے اعلیٰ تعلیم کا خیال چھوڑ دیا لیکن پھر ان کی بڑی بہن فرشتہ بن کر آئی‘ اس نے اپنی طلائی چوڑیاں بیچ کر بھائی کی فیس ادا کر دی یوں یہ یونیورسٹی پہنچ گئے لیکن وہاں فیس معافی کےلئے پوزیشن لینا ضروری تھی‘ عبدالکلام اس کے بعد صرف فیس معاف کرانے کےلئے پوزیشنیں لیتے رہے‘ یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھارت کے ایٹمی پروگرام سے وابستہ ہو گئے‘ عبدالکلام نے 1974ءمیں بھارت کو ایٹمی طاقت بھی بنایا اور یہ بھارت میں میزائل پروگرام کی بنیاد رکھ کر ”میزائل مین“ بھی کہلائے‘ یہ 2000ءتک مختلف پوزیشنوں پر کام کرتے رہے یہاں تک کہ 2002ءمیں کانگریس اور بی جے پی نے انہیں بھارت کا صدر بنا دیا‘ یہ 2007ءتک بھارتی صدر رہے۔
عبدالکلام کمال انسان تھے‘ یہ وقت کے انتہائی پابند تھے‘ صبح ساڑھے چھ سے سات بجے کے درمیان کام شروع کرتے تھے‘ ٹی وی نہیں دیکھتے تھے‘ ان کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا‘ اپنی تمام ای میلز چیک کرتے تھے اور جواب بھی دیتے تھے‘ پوری زندگی کام کیا‘ ان کا انتقال بھی شیلانگ میں لیکچر کے دوران ہوا‘ وہ لیکچر دے رہے تھے‘ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا‘ انہیں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ ’فنی گائے‘ یو آر ڈوئنگ ویل‘کہتے کہتے دنیا سے رخصت ہو گئے‘ یہ ذاتی زندگی میں انتہائی سادہ‘ ایماندار اور منکسرالمزاج تھے‘ وہ ایوان صدر میں تین بکسے لے کر آئے اور یہ تین بکسے ہی ان کے ساتھ واپس گئے‘ بھارت کے پہلے مسلمان صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے دور سے ایوان صدر میں رمضان میں افطار ڈنر دیا جاتا تھا‘ ڈاکٹر عبدالکلام صدر بنے‘ ان کی صدارت کا پہلا رمضان آیا‘ مہمانوں کی فہرست دیکھی‘ سٹاف کو بلایا اور کہا ” یہ تمام لوگ خوش حال ہیں‘ افطاری ان کا ایشو نہیں‘ ہم کیوں نہ یہ رقم یتیم خانوں میں تقسیم کر دیں“ سٹاف نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ صدر نے پوچھا ”افطار ڈنر پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے“ جواب ملا ” اڑھائی لاکھ روپے“ ڈاکٹر عبدالکلام نے اڑھائی لاکھ روپے منگوائے‘ ایک لاکھ روپے ذاتی جیب سے ڈالے‘ ساڑھے تین لاکھ روپے کا آٹا‘ دالیں‘ کمبل اور سویٹر منگوائے اور یہ سامان دہلی کے 28 یتیم خانوں میں تقسیم کرا دیا‘ وہ جب تک صدر رہے‘ وہ افطار ڈنر کی رقم اسی طرح یتیم خانوں میں تقسیم کراتے رہے‘
ڈاکٹر عبدالکلام نے مئی 2006ءمیں اپنے پورے خاندان کو ایوان صدر بلایا‘ خاندان کے 52 افراد ان کی دعوت پر دہلی آئے‘ ان میں ان کے90 سال کے بڑے بھائی شامل تھے اور ڈیڑھ سال کی پوتی بھی‘ یہ لوگ آٹھ دن ایوان صدر میں رہے‘ صدر نے انہیں اجمیر شریف بھی بھجوایا‘ یہ لوگ واپس چلے گئے تو صدر عبدالکلام نے اپنے خاندان کی رہائش‘ خوراک اور ٹرانسپورٹ کا بل منگوایا‘ یہ تین لاکھ 52 ہزار روپے بنتے تھے‘ صدر نے ذاتی اکاﺅنٹ سے یہ رقم ادا کر دی‘ انہوں نے چائے کے ایک ایک کپ کے پیسے ادا کئے‘ خاندان اجمیر شریف گیا تھا‘ اس ”زیارت“ کےلئے بھی کوئی سرکاری گاڑی استعمال نہیں ہوئی‘ صدر نے پرائیویٹ بس کا انتظام کیا اور خاندان کو اس بس پر اجمیر شریف بھجوایا‘ صدر نے پانچ برسوں میں صدر کی حیثیت سے 176 دورے کئے لیکن ان دوروں میں غیر ملکی دورے صرف سات تھے‘ باقی 169 دورے اندرون ملک تھے‘ وہ صدر کی حیثیت سے ملک کی ہر ریاست‘ ہر بڑے شہر اور ہر کمیونٹی کے پاس گئے اور ان سے ملاقات کی‘ وہ ہر ہفتے دو تین سیمیناروں میں بھی شریک ہوتے تھے اور وہاں لیکچر دیتے تھے‘ سادگی کا یہ عالم تھا‘ بھارت کے تقریباً تمام اخبارات‘ صحافیوں اور ٹیلی ویژن اینکرز نے ان کی موت پر یہ واقعہ ضرور بیان کیا‘ وہ بطور صدر کسی تقریب کی صدارت کر رہے تھے‘ عبدالکلام نے صدارتی خطبہ دے دیا‘ تقریب ختم ہو گئی‘ وہ رخصت ہونے لگے تو کسی صحافی نے ان سے سوال پوچھ لیا‘
وہ اس وقت تک سٹیج سے اتر چکے تھے لیکن وہ واپس مڑے اور سٹیج کے ایک کونے میں زمین پر بیٹھ گئے‘ ہال میں بیٹھے لوگ فوراً کھڑے ہو گئے لیکن عبدالکلام نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھے بیٹھے صحافی کی بات کا جواب دیا‘ یہ ان کی ذات میں چھپی ہوئی سادگی تھی‘ وہ اس سادگی کا مظاہرہ کرتے وقت پروٹوکول بھی فراموش کر دیا کرتے تھے‘ وہ کس قدر بڑے انسان تھے ¾ آپ اس کا اندازہ ان کے دورہ امریکا سے لگا لیجئے‘ یہ 2011ءمیں امریکا کے دورے پر گئے‘ یہ نیویارک ائیرپورٹ پہنچے تو یہ اپنے لباس‘ انداز اور نشست و برخاست‘ کسی زاویئے سے وی وی آئی پی نہیں لگتے تھے چنانچہ سیکورٹی حکام نے انہیں تلاشی کےلئے روک لیا‘ ڈاکٹر عبدالکلام نے پیشانی پر شکن ڈالے بغیر تلاشی دے دی‘ کلیئر ہوئے اور آرام سے باہر آ گئے‘ امریکی حکام کو اس واقعے کا علم ہوا تو امریکا نے اس رویئے پر بھارت سے تحریری معافی مانگی‘ یہ سلوک دنیا کے بے شمار حکمرانوں کے ساتھ ہو چکا ہے‘ ہمارے اپنے وزراءاور عسکری حکام امریکی ائیرپورٹس پر اس سلوک کا شکار ہو چکے ہیں لیکن امریکا نے معافی صرف عبدالکلام سے مانگی‘ یہ اعزاز بھی صرف انہی کو حاصل ہوا۔
دنیا میں بے شمار سیلف میڈ لوگ حکمران بنتے ہیں‘ دنیا میں ڈاکٹر عبدالکلام جیسے لوگ بھی بے شمار ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی اور کھردری زمین پر گھٹنوں کے بل چل چل کر کامیابی کے آخری زینے تک پہنچے‘ دنیا میں کامیابی انوکھی بات‘ انوکھی چیز نہیں لیکن کامیابی کے بعد اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ کر اپنی سادگی‘ اپنی ایمانداری اور اپنی عاجزی کو قائم رکھنا کمال ہوتا ہے اور ڈاکٹر عبدالکلام کا یہ کمال‘ کمال قسم کا کمال تھا‘ آپ نے درویشوں کو بادشاہ بنتے اور بادشاہوں کو درویش بنتے دیکھا ہو گا لیکن آپ نے کسی درویش کو تخت پر بیٹھ کر اپنی درویشی سنبھالتے نہیں دیکھا ہو گا لیکن ڈاکٹر عبدالکلام‘ ایک معمولی کشتی بان کے صاحبزادے ڈاکٹر عبدالکلام نے یہ کمال کیا‘ یہ تخت کے سامنے کھڑے ہو کر بھی درویش تھے اور یہ تخت پر بیٹھ کر بھی درویش رہے‘ یہ پانی پر چلتی کشتی کی طرح اقتدار کا سفر پورا کر کے دنیا سے چپ چاپ چلے گئے‘ آپ ڈاکٹر عبدالکلام کی یہ ساری داستان پڑھیں اور اس کے بعد اس سوال کا جواب دیں ”کیا بیس کروڑ لوگوں کے اس ملک میں ڈاکٹر عبدالکلام جیسا کوئی ایک شخص موجود ہے‘ کوئی ایک شخص! ہم جس کی سادگی‘ ایمانداری اور درویشی کی قسم بھی کھا سکیں اور ہم جس کے انتقال پر سات روزہ سوگ بھی منا سکیں‘ کوئی ایک! ہاں کوئی ایک ایسا شخص جو بھرپور زندگی گزارنے کے بعد یہ کہتا ہوا اطمینان سے چلا جائے‘ فنی گائے‘ یو آر ڈوئنگ ویل

Thursday, March 5, 2020

Ek Allah Wala Bozrg Aur Hindu Yatry Ka waqia | kramat | Iman afroz Waqia in Urdu |



پیارے دوستو ! ایک دفعہ شاہ عبدالطیفؒ چور پور کے جنگل میں ایک خشک اور کہنہ سال شیشم کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے ۔ کہ ہندو یاتریوں کا ایک قافلہ وہاں پہنچا ۔ آپؒ نے یاتریوں سے دریافت فرمایا کہ تم یہ اتنا سارا سازو سامان لے کر کہاں جارہے ہو ؟ ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ۔ پریاگ ۔ آپ نے پوچھا وہاں کیا کرو گے ؟ جواب ملا ۔ گنگا اور جمنا کے سنگھم پر اشنان کر کے اپنے پاپ دھوئیں گے ۔ 
آپ نے فرمایا گناہ نہانے سے صاف نہیں ھوتے نیکو کاری اور عبادت الہٰی سے ھی گناہ صاف ھوتے ہیں ۔ ہندو یاتریوں نے آپ کی باتوں کا مزاق اڑایا ۔ اور ایک  پروہت بولا اگر مخفی عبادت سے ہی گناہ صاف ہوتے اور انسان خدا کے زیادہ قریب ہو سکتا ھے تو آپ جو برسوں سے اس خشک اور کہنہ سال شیشم کے درخت کے نیچے عبادت کر رھے ہیں ۔ تو خدا نے آپ پر رحم کیوں نہیں فرمایا ۔ ورنہ وہ اسی درخت کو ہرا بھرا کرکے آپ کے لئے چھاؤں کا انتظام کردیتا ۔ ۔۔۔ ہندو پروہت کی بات سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا ! کہ میرے خدا کےلئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔ ھم مسلمان اس کی ذات پر توکل رکھتے ہیں ۔ وہ بڑا رحیم و کریم ہے اگر وہ چاہے تو فوراً اس درخت کو ہرا بھرا کر دے ۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ھے ۔ یہ کہہ کر آپ نے آیتِ کریمہ پڑھی اور دعا کے لئے ھاتھ اٹھائے ۔ مجیب الداعوات نے آپ کی دعا قبول فرمائی ۔ اور شیشم کا خشک اور کہنہ سال درخت فوراً ہرا بھرا ہوگیا ۔ اور اس کی شاخیں بڑھ گئیں ۔ ہندو یاتریوں کا پورا قافلہ یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا ۔ 
اور آپؒ کے دست حق پرست پر سبھی یاتری اسلام لے آئے ۔ (تزکراء اولیاء پاکستان)
پیارے دوستو ! اگر ہماری پوسٹ اچھی لگے تو اپنے دوستوں کیساتھ شیئر ضرور کیجیئے گا ۔ شکریہ

Monday, March 2, 2020

Jung e Khaibar / Hazrat Ali as ki Taqat ke chhoti se jhalak



امیرالمومنین حضرت علیؑ شیر خدا مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر اس دنیا میں تشریف لے آئے ۔ آپ کی والدہ محترمہ جناب فاطمہ بنتِ اسدؑ نے اپنے والد کے نام پر آپ کا نام مبارک حیدر رکھا ۔
آپ کے والد نے آپؑ کا نام علی رکھا ۔ جناب رسول حضرت محمد مصطفیﷺ نے آپ کو اسداللہ کے لقب سے نوازہ اس کے علاوہ مرتضٰی یعنی چنا ھوا ۔ اور کرار یعنی پلٹ پلٹ کر حملے کرنے والا ۔ شیر خدا , مشکل کشاء اور ابو تراب امیرالمومنینؑ کے مشہور القابات ہیں ۔
غزوہ خیبر  میں ایک یہودی نے حضرت علی حیدر کرارؑ پر حملہ کیا اسی دوران آپؑ کی ڈھال گرگئی ۔ تو شیر خدا آگے بڑھ کر قلعے کے دروازے تک پہنچ گئے ۔ اور اپنے ھاتھوں سے قلعے کا پھاٹک اکھاڑ دیا ۔ اور کواڑ کو ڈھال بنا لیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ کواڑ برابر حضرت علی  شیر خداؑ کے ھاتھ میں رھا ۔ حیدر کرارؑکفار سے لڑتے رھے ۔ یہاں تک کہ اللہ ﷻ نے شیرخداؑ کے ھاتھوں خیبر کو فتح فرمایا ۔ یہ کواڑ اتنا وزنی تھا کہ جنگ کے بعدچالیس آدمیوں نے مل کر اسے اٹھانا چاھا مگر وہ ان سے نہ اٹھ سکا ۔
دوستو ! اگر پوسٹ پسند آئے تو اسے دوستوں کےساتھ ضرور شیئر گیجیئے گا ۔ شکریہ

Sunday, March 1, 2020

Hazrat Ali AS Aur Aik Ghulam ka waqia


روایت ہےکہ ایک حبشی غلام جو امیرالمومنین  حضرت علیؑ کا انتہائی مخلص محب تھا ۔

شامت اعمال سے اس نے ایک دفعہ ایک چوری کرلی۔ لوگوں نے اس کو پکڑ کر امیرالمومنین علیؑ کی خدمت میں پیش کردیا ۔ اور غلام نے اپنے جرم کا اقرار بھی کرلیا ۔
    امیرالمومنین حضرت علیؑ نے اس کا ایک ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دے دیا ۔ جب وہ اپنے گھر کو روانہ ھوا تو راستہ میں اس کی ملاقات حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ اور ابن الکراء سے ھو گئی ۔ ابن الکراء نے پوچھا کہ تمہارہ ہاتھ کس نے کاٹا ھے ؟ تو غلام نے کہا کہ امیرالمومنین و یعسوب المسلیمین داماد رسولؐ و زوج بتول نے ۔
ابن الکراء نے کہا کہ امیرالمومنینؑ نے تمہارہ ہاتھ  کاٹ دیا پھر بھی تم اس قدر اعزاز واکرام اور مداح وثناء کیساتھ ان کا نام لیتے ھو ؟
غلام نے کہا تو پھر کیا ھوا , انہوں نے حق پر میرا ہاتھ کاٹا اور مجھے جہنم کے عزاب سے بچا لیا ۔ حضرت سلمان فارسیؓ دونوں کی گفتگو سنی اور  امیرالمومنینؑ سے اس کا تزکرہ کیا ۔
تو امیرالمؤمنینؑ نے اس غلام کو بلواکر اس کا کٹا ھوا ہاتھ اس کی کلائی پر رکھ کر اسے رومال سے چھپا دیا ۔ پھر کچھ پڑھنا شروع کر دیا ۔ اتنے میں ایک آواز سنائی دی کہ رومال ھٹا دو ! جب لوگوں نے رومال ھٹایا تو غلام کا کٹا ھوا ھاتھ کلائی کیساتھ اس طرح جڑ چکا تھا کہ کٹنے کا نشان تک نہیں تھا ۔
پیارے دوستو ! اگر ہماری پوسٹ آپ کو پسند آے تو کمنٹ اور شیئر ضرور کیجیئے گا ۔

Friday, February 28, 2020

Behlol Dana (R.A) Ki Badshah ko Nasehat | Heart Touching Story in urdu


حضرت بہلول داناؒ ہارون رشید کے زمانےمیں ایک مجزوب صفت بزرگ گزرے ہیں۔
ہارون رشید ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتا تھا ۔ کبھی کبھی جزب کی حالت میں وہ بڑے پتے کی بات کہہ جایا کرتے تھے ۔
ایک دفعہ بہلول داناؒ ھارون رشید کے محل پہنچے۔ ھارون  رشید نے ایک چھڑی اٹھا کر ان کو دی ۔ اور مزاحاً  کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں یہ اس کو دینا جو تم سے زیادہ بے وقوف ہو ۔
حضرت بہلولؒ نے بڑی سنجیدگی سے وہ چھڑی لے کر رکھ لی ۔ اور واپس چلے آئے ۔ بات آئی گئی ھو گئی ۔ شاید ھارون رشید بھی یہ بات بھول گیا تھا ۔
کچھ عرصہ کے بعد ھارون رشید کو ایک سخت بیماری لاحق ہو گئی اور بچنے کی کوئی امید نہیں تھی ۔ اطباء نے جواب دے دیا ۔
بہلول داناؒ بھی عیادت کے لئے  گئے اور سلام کے بعد پوچھا ۔ بادشاہ سلامت کیا حال ہے ۔
ھارون رشید نے کہا ۔ کیا حال پوچھتے ہو بہلول !
بڑا لمبا سفر درپیش ھے ۔ کہاں کا سفر ? جواب دیا کہ آخرت کا سفر! حضرت بہلولؒ نے سادگی پوچ سےکھا کہ واپسی کب ھو گی ? جواب دیا کہ بہلول تم بھی عجیب آدمی ھو ۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس  ھوا ھے ۔حضرت بہلول نے تعجب سے کہا اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے ؟ تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کیئے اور آپ کیساتھ اور کون کون جا رہا ہے ۔؟
جواب دیا کہ آخرت کے سفر پر کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا ۔ خالی ہاتھ جا رہا ہوں ۔
بہلول داناؒ نے فرمایا ۔ اچھا اتنا لمبا سفر اور کوئی معین و مدد گار بھی نہیں ۔ تو لیجیئے ! انہوں نے ہارون رشید کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا ۔ یہ امانت واپس ھے ۔ مجھے آپ کے سوا کوئی انسان مجھ سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا ۔ آپ جب کبھی کسی چھوٹے سفر پر جاتے تھے تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں ۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے ۔ حشم و خدام کیساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے ۔ اور اب اتنے لمبے سفر میں جہاں سے واپسی بھی ممکن نہیں ۔ آپ نے تیاری نہیں کی ۔ ھارون رشید نے یہ سنا تو رو پڑا اور کہا ۔ بہلول ھم تم کو دیوانہ سمجھا کرتے تھے ۔ مگر آج پثا چلا کہ تمہارے جیسا کوئی فرزانہ نہیں ھے ۔
پیارے دوستو ! اگر آپ کو ھماری یہ پوسٹ اچھی لگے شئیر ضرور کیجئے گا ۔