Tuesday, December 28, 2021

دو جگہ بیوی کو اکیلا مت چھوڑنا ۔خوبصورت اقوال کا مجموعہ۔

کوا وہ پرندہ جو عقاب کو تنگ کر سکتا ہے. یہ پرندوں کے بادشاہ عقاب کی پشت پر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی چونچ سے اسکی گردن پر کاٹتاہے۔ جبکہ کوے سے زیادہ طاقتور عقاب کوے کا مقابلہ کرنے میں اپنی طاقت اور وقت صرف نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اپنے پر کھولتا اور آسمان کی طرف اونچی اڑان بھرنا شروع کر دیتا ہے۔ عقاب کی پرواز جتنی بلند ھوتی جاتی ہے کوے کی اڑان اتنی ہی مشکل ہو جاتی ہے اور بل آخر وہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے گر جاتاہے۔ آپ کی پرواز کے سامنے آسمان کھلا ہواہے۔ اپنی اڑان کو اونچا کرتے جائیں تو بہت سی رکاوٹيں خود ہی دور ہوتی جائیں گی۔ اپنی طاقت عقاب کی مانند مثبت کاموں میں صرف کريں۔ اپنی پرواز کی قوت کو جان لیجیے۔ اور اسی پر یقین رکھیں... جب مشین کو زنگ لگ جائے تو پرزے شور کرنے لگ جاتے ہیں اور اگر عقل کو زنگ لگ جائے تو زبان فضول بولنے لگتی ہے ۔ زندگی تب بہترین ہوتی ہے جب آپکی وجہ سے کوئی دوسرا خوش ہوتا ہے اور جب کسی اپنے کو مصیب دیکھو تو سینہ تان کے کہو کہ گھبرانہ مت میں تمہارا اپنا ہوں ۔ بےشک انسانیت اور اچھا اخلاق انسان کو ہمیشہ بلند درجے پر رکھتا ہے وصول وہی کروگے جو دوسروں کو دوگے چاہے وہ دھوکہ ہو یا عزت ۔ محبت پہلے اندھی ہوتی تھی لیکن اب اس نے اپنا علاج کروا لیا ہے اب شکل بھی دیکھتی ہے اور بنک بیلنس بھی ۔ جو عورت آپ سے سچا پیار کرتی ہے وہ آپ سے دو باتیں ضرور پوچھے گی نمبر ایک مجھ سے پہلے تمہاری زندگی میں کوئی اور تھا یا نہیں نمبر دو میں تمہاری زندگی میں کتنی اہمیت رکھتی ہوں ۔

عورت کو قابو کرنے کا طریقہ ۔خوبصورت اقوال کا مجموعہ ۔

کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سےہوا ،ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھاکس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟ طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھےجس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا،اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو،آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،میرے ساتھ کھانا کھاؤ، اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی، کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی، تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..تم کہاں جا رہی ہو طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ، میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔، الو یہ سن کر ہنسا..اور کہا ..یہ تم کیا کہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو.اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تواُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہاایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کےحق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو، یہ اب میری بیوی کہاں ہے ، عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے اُلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا،نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے-میں تمہیں صرف یہ بتاناچاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے..!!۔ دانا کہتے ہیں کہ عورت کو قابو کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے اولاد جس سے عورت مرد سے وابستہ رہنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔

خوبصورت دل چھو لینے والے اقوال کا مجموعہ۔ زندگی کے تین اہم اصول۔

بادشاہ کا موڈ اچھا تھا! وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا ”تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے“ وزیر شرما گیا‘ اس نے منہ نیچے کر لیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”تم گھبراﺅ مت‘ بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاﺅ“ وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا ”حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں‘ میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا“ وزیر خاموش ہو گیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟“ وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا ”بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے‘ میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں“ بادشاہ نے فوراً احکامات لکھنے کا حکم دیا‘ بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا‘ دوسرے حکم میں بادشاہ نے وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا‘ وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا‘ بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ”تمہارے پاس تیس دن ہیں‘ تم نے ان 30 دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں‘ تم کامیاب ہو گئے تو میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق تمہارا سر اتار دیا جائے گا“ وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی‘ بادشاہ نے اس کے بعد فرمایا ”میرے تین سوال لکھ لو“ وزیر نے لکھنا شروع کر دیا‘ بادشاہ نے کہا ”انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟“ وہ رکا اور بولا ”دوسرا سوال‘ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے“ وہ رکا اور پھر بولا ”تیسرا سوال‘ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے“ بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور بآواز بلند فرمایا ”تمہارا وقت شروع ہوتا ہے اب“۔ وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ لگا دی‘اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور‘ ادیب‘ مفکر اور ذہین لوگ جمع کئے اور سوال ان کے سامنے رکھ دیئے‘ ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے لیکن وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیئے لیکن نتیجہ وہی نکلا‘ وہ آنے والے دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر دارالحکومت سے باہر نکل گیا‘ وہ سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا‘ وہ مارا مارا پھرتا رہا‘ شہر شہر‘ گاﺅں گاﺅں کی خاک چھانتا رہا‘ شاہی لباس پھٹ گیا‘ پگڑی ڈھیلی ہو کر گردن میں لٹک گئی‘ جوتے پھٹ گئے اور پاﺅں میں چھالے پڑ گئے‘ یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آ گیا‘ اگلے دن اس نے دربار میں پیش ہونا تھا‘ وزیر کو یقین تھا یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے‘ کل اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پُل پر لٹکا دیا جائے گا‘ وہ مایوسی کے عالم میں دارالحکومت کی کچی آبادی میں پہنچ گیا‘ آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی تھی‘ وہ گرتا پڑتا اس کٹیا تک پہنچ گیا‘ فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا‘ ساتھ ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور فقیر کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا تھا‘ فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی‘ قہقہہ لگایا اور بولا ”جناب عالی! آپ صحیح جگہ پہنچے ہیں‘ آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں“ وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ”آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا‘ میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے“ فقیر نے سوکھی روٹی کے ٹکڑے چھابے میں رکھے‘ مسکرایا‘ اپنا بوریا اٹھایا اور وزیر سے کہا ”یہ دیکھئے‘ آپ کو بات سمجھ آ جائے گی“ وزیر نے جھک کر دیکھا‘ بوریئے کے نیچے شاہی خلعت بچھی تھی‘ یہ وہ لباس تھا جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراءکو عنایت کرتا تھا‘ فقیر نے کہا ”جناب عالی میں بھی اس سلطنت کا وزیر ہوتا تھا‘ میں نے بھی ایک بار آپ کی طرح بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کر لی تھی‘نتیجہ آپ خود دیکھ لیجئے“ فقیر نے اس کے بعد سوکھی روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور دوبارہ پانی میں ڈبو کر کھانے لگا‘ وزیر نے دکھی دل سے پوچھا ”کیا آپ بھی جواب تلاش نہیں کر سکے تھے“ فقیر نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”میرا کیس آپ سے مختلف تھا‘ میں نے جواب ڈھونڈ لئے تھے‘ میں نے بادشاہ کو جواب بتائے‘ آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا‘ بادشاہ کو سلام کیا اور اس کٹیا میں آ کر بیٹھ گیا‘ میں اور میرا کتا دونوں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں“ وزیر کی حیرت بڑھ گئی لیکن یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا‘ جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی چنانچہ وزیر اینکر پرسن بننے کی بجائے فریادی بن گیا اور اس نے فقیر سے پوچھا ”کیا آپ مجھے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں“ فقیر نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا ”میں پہلے دو سوالوں کا جواب مفت دوں گا لیکن تیسرے جواب کےلئے تمہیں قیمت ادا کرنا ہو گی“ وزیر کے پاس شرط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلا دی‘فقیر بولا ”دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے‘ انسان کوئی بھی ہو‘ کچھ بھی ہو‘ وہ اس سچائی سے نہیں بچ سکتا“ وہ رکا اور بولا ”انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے‘ ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے“ فقیر کے دونوں جواب ناقابل تردید تھے‘ وزیر سرشار ہو گیا‘ اس نے اب تیسرے جواب کےلئے فقیر سے شرط پوچھی‘ فقیر نے قہقہہ لگایا‘ کتے کے سامنے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا‘ وزیر کے ہاتھ میں دیا اور کہا ”میں آپ کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک آپ یہ دودھ نہیں پیتے“ وزیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا ‘اس نے نفرت سے پیالہ زمین پر رکھ دیا‘ وہ کسی قیمت پر کتے کا جوٹھا دودھ نہیں پینا چاہتا تھا‘ فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا ” تمہارے پاس اب دو راستے ہیں‘ تم انکار کر دو اور شاہی جلاد کل تمہارا سر اتار دے یا پھر تم یہ آدھ پاﺅ دودھ پی جاﺅ اور تمہاری جان بھی بچ جائے اور تم آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جاﺅ‘ فیصلہ بہرحال تم نے کرنا ہے“ وزیر مخمصے میں پھنس گیا‘ ایک طرف زندگی اور آدھی سلطنت تھی اور دوسری طرف کتے کا جوٹھا دودھ تھا‘ وہ سوچتا رہا‘ سوچتا رہا یہاں تک کہ جان اور مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئی‘ وزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا‘ فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میرے بچے‘ انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے‘ یہ اسے کتے کا جوٹھا دودھ تک پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اس کٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا‘ میں جان گیا تھا‘ میں جوں جوں زندگی کے دھوکے میں آﺅں گا‘میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاﺅں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا‘ میں اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاﺅں گا اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کےلئے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا لہٰذا میرا مشورہ ہے‘ زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو جان لو‘ تمہاری زندگی اچھی گزرے گی“ وزیر خجالت‘ شرمندگی اور خودترسی کا تحفہ لے کر فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا‘ وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا‘ اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا‘ وہ اس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا‘ اس کے سینے میں خوفناک ٹیس اٹھی‘ وہ گھوڑے سے گرا‘ لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ہمیں کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر زندگی کے ان بنیادی سوالوں پر ضرور غور کرناچاہیے‘ ہمیں یہ سوچنا چاہیے ہم لوگ کہیں زندگی کے دھوکے میں آ کر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے‘ ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے‘ ہم کہیں اس کہانی کے وزیر تو نہیں بن گئے ‘ مجھے یقین ہے ہم لوگوں نے جس دن یہ سوچ لیا اس دن ہم غرض کے ان غلیظ پیالوں سے بالاتر ہو جائیں گے۔ ۔ جس مرد میں پیار اور عزت کرنے اور عورت کو خوش رکھنے کی خاصیت ہو تو عورت ایسے مرد کے عشق میں پاگل ہوجاتی ہے ۔

Saturday, December 25, 2021

جو عورت تم سے سچی محبت کرتی ہے وہ دو باتیں ضرور پوچھے گی ۔ عورتوں کے متعلق اقوال ۔ سبق آموز اقوال۔

کوا وہ پرندہ جو عقاب کو تنگ کر سکتا ہے. یہ پرندوں کے بادشاہ عقاب کی پشت پر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی چونچ سے اسکی گردن پر کاٹتاہے۔ جبکہ کوے سے زیادہ طاقتور عقاب کوے کا مقابلہ کرنے میں اپنی طاقت اور وقت صرف نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اپنے پر کھولتا اور آسمان کی طرف اونچی اڑان بھرنا شروع کر دیتا ہے۔ عقاب کی پرواز جتنی بلند ھوتی جاتی ہے کوے کی اڑان اتنی ہی مشکل ہو جاتی ہے اور بل آخر وہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے گر جاتاہے۔ آپ کی پرواز کے سامنے آسمان کھلا ہواہے۔ اپنی اڑان کو اونچا کرتے جائیں تو بہت سی رکاوٹيں خود ہی دور ہوتی جائیں گی۔ اپنی طاقت عقاب کی مانند مثبت کاموں میں صرف کريں۔ اپنی پرواز کی قوت کو جان لیجیے۔ اور اسی پر یقین رکھیں... جب مشین کو زنگ لگ جائے تو پرزے شور کرنے لگ جاتے ہیں اور اگر عقل کو زنگ لگ جائے تو زبان فضول بولنے لگتی ہے ۔ زندگی تب بہترین ہوتی ہے جب آپکی وجہ سے کوئی دوسرا خوش ہوتا ہے اور جب کسی اپنے کو مصیب دیکھو تو سینہ تان کے کہو کہ گھبرانہ مت میں تمہارا اپنا ہوں ۔ بےشک انسانیت اور اچھا اخلاق انسان کو ہمیشہ بلند درجے پر رکھتا ہے وصول وہی کروگے جو دوسروں کو دوگے چاہے وہ دھوکہ ہو یا عزت ۔ محبت پہلے اندھی ہوتی تھی لیکن اب اس نے اپنا علاج کروا لیا ہے اب شکل بھی دیکھتی ہے اور بنک بیلنس بھی ۔ جو عورت آپ سے سچا پیار کرتی ہے وہ آپ سے دو باتیں ضرور پوچھے گی نمبر ایک مجھ سے پہلے تمہاری زندگی میں کوئی اور تھا یا نہیں نمبر دو میں تمہاری زندگی میں کتنی اہمیت رکھتی ہوں ۔

Friday, December 24, 2021

عورت اس مرد کو روح تو کیا اپنا جسم بھی سونپ دیتی ہے / اقوال/راز کی باتیں/عورتوں کی نفسیات/

جب کوئی عورت یہ کہتی کہ دنیا کے سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ دنیا کے سارے مردوں کو آزما چکی ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کو اس نے آزمایا تھا وہی مرد اس کی ساری دنیا تھا ۔ مرد کا سب سے بڑا خسارہ یہ ہے کہ وہ عورت کے دل سے اتر جائے پھر چاہے وہ اسکےلئے دنیا کی ساری دولت لٹادے مگر عورت کے دل میں پھر سے اپنا وہ مقام نہیں پا سکتا ۔ جب بیوی تم سے سوالات کرتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تم پر شک کرتی ہے بلکہ وہ تمہارے اور قریب آنا چاہتی ہے ۔ وہ عورت اپنے مرد کے دل سے اتر جاتی ہے جو اپنے حسن کی نمائش دوسرے مردوں کے سامنے کرنے لگتی ہے ۔ مرد اگر چاہتا ہے کہ وہ بیوی کے دل سے کبھی نہ اترے تو اسے چاہیے کہ وہ بیوی کی عزت کرے تنہائی میں بھی اور لوگوں کے سامنے بھی ۔ ساتھی وہی ہوتا ہے جو ساتھ دیتا ہے جس کے ساتھ کےلئے اس کے پیچھے بھاگنا پڑے تو وہ بھلا کیا ساتھ دیگا ۔ مرد کی خوبصورتی اس کی شکل میں نہیں اس کے الفاظ میں ہوتی ہے اگر اس کے الفاظ بدصورت ہوجائیں تو اچھا خاصہ دکھنے والا مرد بھی بدصورت دکھنے لگتا ہے ۔ عزت دینا ایک ایسا کاروبار ہے جس میں گھاٹا نہیں آپ جتنا انویسٹ کریں گے ڈبل منافع ہوگا ۔ عورت اس مرد کے عشق میں پاگل اور دیوانی ہوجاتی ہے وہ اپنی روح تو کیا اپنا جسم بھی اس مرد کو سونپ دیتی ہے جو عورت کے بچپن میں اس کی زندگی میں آنیوالا پہلا مرد ہو کیونکہ بچپن میں کی جانے والی محبت کی پختگی جوانی میں ہوجانے والی محبت سے زیادہ پاور فل ہوتی ہے ۔

Thursday, December 23, 2021

عورت ایک بات کبھی نہیں چھپا سکتی۔ عورتوں کی نفسیات۔ عورتوں کے اقوال۔

مجھے کسی صاحب نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا. وہ ترکی کے راستے یونان جانا چاہتے تھے. ایجنٹ انھیں ترکی لے گیا.یہ ازمیر شہر میں دوسرے لوگوں کے ساتھ برفباری کا انتظار کرنے لگے.سردیاں یورپ میں داخلے کا بہترین وقت ہوتا تھا.برف کی وجہ سے سیکیورٹی اہلکار مورچوں میں دبک جاتے تھے، بارڈر پرگشت رک جاتا تھا،ایجنٹ لوگوں کو کشتیوں میں سوار کرتے تھے،اور انھیں یونان کے کسی ساحل پر اتار دیتے تھے، یہ ایجنٹوں کی عام پریکٹس تھی۔ اس صاحب نے بتایا: ہم ترکی میں ایجنٹ کے ڈیرے پر پڑے تھے ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کا ایک گندہ سا لڑکا تھا وہ نہاتا بھی نہیں تھا، اور دانت بھی صاف نہیں کرتا تھا. اس سے خوفناک بو آتی تھی. تمام لوگ اس سے پرہیز کرتے تھے.ہم لوگ دسمبر میں کشتی میں سوار ہوئے‘ ہم میں سے کوئی شخص اس لڑکے کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتا تھا ہم نے اسے روکنے کی کوشش کیلیکن وہ روناشروع ہو گیا‘ ایجنٹ کے پاس وقت کم تھا چنانچہ اس نے اسے ٹھڈا مار کر کشتی میں پھینک دیا. کشتی جب یونان کی حدود میں داخل ہوئی،تو کوسٹ گارڈ ایکٹو تھے۔ یونان کو شاید ہماری کشتی کی مخبری ہو گئی تھی. ایجنٹ نے مختلف راستوں سے یونان میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر ہر راستے پر کوسٹ گارڈ تھے.اس دوران اس لڑکے کی طبیعت خراب ہو گئی. وہ الٹیاں کرنے لگا. ہم نے ایجنٹ سے احتجاج شروع کر دیا. ایجنٹ ٹینشن میں تھا اسے غصہ آ گیا اس نے دو لڑکوں کی مدد لی، اور اس گندے لڑکے کو اٹھا کر یخ ٹھنڈے پانی میں پھینک دیا. وہ بے چارہ ڈبکیاں کھانے لگا. ہم آگے نکل گئے.ہم ابھی آدھ کلومیٹر آگے گئے تھے کہ ہم پر فائرنگ شروع ہو گئی‘ ایجنٹ نے کشتی موڑنے کی کوشش کی۔کشتی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور وہ پانی میں الٹ گئی.ہم سب پانی میں ڈبکیاں کھانے لگے میں نے خود کو سردی‘ پانی اور خوف کے حوالے کر دیا. جب میری آنکھ کھلی تو میں اسپتال میں تھا مجھے هسپتال کے عملے نے بتایا "کشتی میں سوار تمام لوگ مر چکے ہیں.صرف دو لوگ بچے ہیں میں نے دوسرے زنده شخص کے بارے میں پوچھا. ڈاکٹر نے میرے بیڈ کا پردہ ہٹا دیا دوسرے بیڈ پر وہی لڑکا لیٹا تھا جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے سمندر میں پھینکا تھا سمندر کی لہریں اسے دھکیل کر ساحل تک لے آئی تھیں۔ مجھے کوسٹ گارڈز نے بچا لیا تھا.جب کہباقی لوگ گولیوں کا نشانہ بن گئے،یا پھر سردی سے ٹھٹھر کر مر چکے تھے. میں پندرہ دن اسپتال رہا. میں اس دوران یہ سوچتا رہا: میں کیوں بچ گیا"؟ مجھے کوئی جواب نہیں سوجھتا تھا. میں جب اسپتال سے ڈسچارج ہو رہا تھا، مجھے اس وقت یاد آیا. میں نے اس لڑکے کو لائف جیکٹ پہنائی تھی. ایجنٹ جب اسے پانی میں پھینکنے کے لیے آ رہا تھا تو میں نے فوراً باکس سے جیکٹ نکال کر اسے پہنا دی تھی. یہ وہ نیکی تھی جس نے مجھے بچا لیا. مجھے جوں ہی یہ نیکی یاد آئی مجھے چھ ماہ کا وہ سارا زمانہ یاد آ گیا جو ہم نے اس لڑکے کے ساتھ گزارہ تھا. ہم نہ صرف ترکی میں اس کی وجہ سے بچتے رہے تھے بلکہ وہ لڑکا جب تک ہماری کشتی میں موجود رہا،ہم سب لوگ کوسٹ گارڈز سے بھی محفوظ رہے یخ پانی سے بھی،اور موت سے بھی. ہم نے جوں ہی اسے کشتی سے دھکا دیا، موت نے ہم پر اٹیک کر دیا. میں نے پولیس سے درخواست کی: میں اپنے ساتھی سے ملنا چاہتا ہوں پولیس اہلکاروں نے بتایا: وہ پولیس وین میں تمہارا انتظار کر رہا ہے میں گاڑی میں سوار ہوا اور جاتے ہی اسے گلے سے لگا لیا۔ مجھے اس وقت اس کے جسم سے کسی قسم کی کوئی بو نہیں آ رہی تھی. تب مجھے معلوم ہوامیرے ساتھیوں کو دراصل اس کے جسم سے اپنی موت کی بو آتی تھی. یہ ان لوگوں کی موت تھی جو انھیں اس سے الگ کرنا چاہتی تھی.اور وہ جوں ہی الگ ہوئے سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔ عورت چالیس سال تک اپنی محبت چھپا سکتی ہے مگر ایک منٹ کےلئے اپنی نفرت نہیں چھپا سکتی ۔۔ ایک دانا کا کہنا ہے کہ عورت کو سمجھنا بہت مشکل ہے اس کی اکثر باتوں کا الٹا مطلب ہوتا ہے جب عورت کہے کہ میں ٹھیک ہوں تو سمجھو وہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ عورت چاہتی ہے کہ جب میں کہوں کہ سب ٹھیک ہے تو کوئی ہو جو میری آنکھوں میں جھانکے اور کہے کہ سب ٹھیک نہیں ہے ۔

Wednesday, December 22, 2021

وہ مرد عورت کے دل میں اتر جاتا ہے پھر عورت دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں اس کےلئے پاگل ہوجاتی ہے

بس پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی.اچانک بجلی چمکی. بس کے قریب آئی اور واپس چلی گئی‘بس آگے بڑھتی رہی‘ آدھ گھنٹے بعد بجلی دوبارہ آئی‘بس کے پچھلے حصے کی طرف لپکی لیکن واپس چلی گئی‘بس آگے بڑھتی رہی‘ بجلی ایک بار پھر آ ئی.وہ اس بار دائیں سائیڈ پر حملہ آور ہوئی لیکن تیسری بار بھی واپس لوٹ گئی.ڈرائیور سمجھ دار تھا‘ اس نے گاڑی روکی اور اونچی آواز میں بولا ’’بھائیوبس میں کوئی گناہگار سوار ہے۔ یہ بجلی اسے تلاش کر رہی ہے‘ ہم نے اگر اسے نہ اتارا تو ہم سب مارے جائیں گے بس میں سراسیمگی پھیل گئی اور تمام مسافر ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے ڈرائیور نے مشورہ دیا.سامنے پہاڑ کے نیچے درخت ہے ہم تمام ایک ایک کر کے اترتے ہیں اور درخت کے نیچے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ہم میں سے جو گناہ گار ہو گا بجلی اس پر گر جائے گی اور باقی لوگ بچ جائیں گے یہ تجویز قابل عمل تھی‘ تمام مسافروں نے اتفاق کیا‘ ڈرائیور سب سے پہلے اترا، اور دوڑ کر درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ بجلی آسمان پر چمکتی رہی لیکن وہ ڈرائیور کی طرف نہیں آئی.وہ بس میں واپس چلا گیا دوسرا مسافر اترااور درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا بجلی نے اس کی طرف بھی توجہ نہیں دی‘ تیسرا مسافر بھی صاف بچ گیا یوں مسافر آتے رہے‘ درخت کے نیچے کھڑے ہوتے رہے اور واپس جاتے رہے یہاں تک کہ صرف ایک مسافر بچ گیا. یہ گندہ مجہول سا مسافر تھا. کنڈیکٹر نے اسے ترس کھا کر بس میں سوار کر لیا تھا. مسافروں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔لوگوں کا کہنا تھا: ہم تمہاری وجہ سے موت کے منہ پر بیٹھے ہیں،تم فوراً بس سے اتر جاؤ وہ اس سے ان گناہوں کی تفصیل بھی پوچھ رہے تھے جن کی وجہ سے ایک اذیت ناک موت اس کی منتظر تھی. مگر وہ مسافر اترنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن لوگ اسے ہر قیمت پر بس سے اتارنا چاہتے تھے مسافروں نے پہلے اسے برا بھلا کہہ کر اترنے کا حکم دیا پھر اسے پیار سے سمجھایا اور آخر میں اسے گھسیٹ کر اتارنے لگے۔ وہ شخص کبھی کسی سیٹ کی پشت پکڑ لیتا تھا کبھی کسی راڈ کے ساتھ لپٹ جاتا تھا، اور کبھی دروازے کو جپھا مار لیتا تھا. لیکن لوگ باز نہ آئے انھوں نے اسے زبردستی گھسیٹ کر اتار دیا. ڈرائیور نے بس چلا دی.بس جوں ہی گناہ گار شخص "سے چند میٹر آگے گئی دھاڑ کی آواز آئی بجلی بس پر گری،اور تمام مسافر چند لمحوں میں جل کر بھسم ہو گئے.وہ گناہگار مسافر دو گھنٹوں سے مسافروں کی جان بچا رہا تھا۔ زیادہ تر ہم غلط لوگوں کو پسند کرلیتے ہیں ۔اور جب اچھے لوگ ملتے ہیں تو ہم اعتبار کرنا چھوڑ چکے ہوتے ہیں ۔ زندگی میں کبھی ان لوگوں کو کھونے کی غلطی مت کرنا جنکی آنکھیں آپ کےلئے روئی ہوں جن کے لب آپ کےلئے دعا گو رہے ہوں اور جن کا دل آپ کےلئے تڑپا ہو کیونکہ ایسے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ۔ وہ مرد عورت کے دل میں اتر جاتا ہے پھر عورت دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں اس کےلئے پاگل ہوجاتی ہے جو عورت کا محبوب بن کر اس کی دل وجان میں رس بس چکا ہو ۔

جو عورت غیر مردوں سے تعلقات رکھتی ہے

علم ، دولت اور عزت تین دوست تھے ایک دفعہ تینوں ایک جگہ جمع ہوئے اور جدا ہونے لگے تو ان تینوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ کچھ اس طرح تھی ۔ علم : اب میں جارہا ہوں اگر مجھے ملنا ہوتو عالموں کی صحبت اور ان کی کتابوں میں تلاش کرنا ۔ دولت : مجھے اگر ملنا ہوتو امیروں کے بڑے بڑے محلوں میں تلاش کرنا ۔ عزت : کچھ نہ بولی تو اس کے ساتھیوں نے اس سے پوچھا آپ خاموش کیوں ہیں؟ عزت بولی ، اگر میں ایک بار کسی کے پاس سے چلی جاؤں تو واپس نہیں آتی میرا کوئی مقام نہیں ۔ بہترین بھلائی وہ ہے جو تم کسی ایسے شخص کیساتھ کرو جو تمہیں کچھ بھی نہیں دے سکتا ۔ برداشت بزدلی نہیں بلکہ زندگی کا ایک اہم اصول ہے جس انسان میں قوت برداشت ہے وہ کبھی ہار نہیں سکتا ۔ انسان تب سمجھدار نہیں ہوتا جب وہ بڑی بڑی باتیں کرنے لگتا ہے بلکہ تب سمجھدار ہوتا ہے جب وہ چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھنے لگتا ہے ۔ بدکردار دوسروں کے کردار کو اور بے ایمان دوسروں کے ایمان کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ تین چیزوں کو کبھی چھوٹا نہ سمجھنا ۔ قرض فرض اور مرض ۔ تین چیزوں کو کبھی نہ ٹھکرانہ خلوص توبہ اور محبت ۔ جو عورت غیر مردوں سے تعلقات رکھتی ہے وہ جائز تعلق کو نبھانے میں ناکام ہو جاتی ہے ۔

ماہرین نفسیات کے متابق جب کوئی عورت آپ کی طرف دیکھ کر اپنے ہونٹ کاٹ رہی ہو تو اس کے دو مطلب ہوتے ہیں

شوہر آفس سے سیدھا گھر آیا اور آتے ہی کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گیا اور بیوی سے کہا جلدی سے کچھ کھانے کو لاؤ بہت بھوک لگی ہے ۔ بیوی نے کہا آپ بیٹھیئے میں ابھی لاتی ہوں اور پھر وہ کھانا لینے کچن میں چلی گئی شوہر نے پھر آواز لگائی بیگم جلدی لاؤ بہت بھوک لگی ہے بیگم جلدی سے کھانا لائی اور ٹیبل پر سجا دیا شوہر نے پوچھا کیا بنایا ہے تو بیوی بولی دال چاول بنائے ہیں ۔ یہ سنتے ہی شوہر بولا ساری بھوک ہی ختم ہوگئی کچھ اچھا نہیں بنا سکتی جب بھی پوچھو کچھ نہ کچھ ایسا ہی بنایا ہوتا ہے ۔ کہ سنتے ہی بھوک اڑجاتی ہے مجھے نہیں کھانا لےجاؤ اس کو واپس ۔اتنے میں باہر دروازے پر دروازے پر دستک ہوئی شوہر اٹھا اور دروازہ کھولا سامنے ایک فقیر کھڑا تھا فقیر کہنے لگا کل سے کچھ نہیں کھایا بہت بھوکا ہوں کچھ کھانے کو ملے گا اللہ آپ کا بھلا کرے ۔ شوہر واپس مڑا اور وہی کھانا جو اسے بیوی نے دیا تھا سارا اٹھایا اور فقیر کو دے دیا فقیر کھانا دیکھتے ہی بہت خوش ہوا اور اس کے ہاتھ سے کھانا لیتے ہی وہیں زمین پر بیٹھ کر گیا اور پاگلوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑا وہ شخص وہیں کھڑا اس فقیر کو غور سے دیکھتا رہا جب فقیر کھانا کھا چکا تو اس کو دعائیں دیتا وہاں سے چلا گیا اور وہ دروازے پر کھڑا فقیر کو حیرانگی سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا کہ جس کھانے کو وہ برا کہہ رہا تھا وہی کھانا کسی کےلئے کتنی خوشی کا باعث بنا ۔ ماہرین نفسیات کے متابق جب کوئی عورت آپ کی طرف دیکھ کر اپنے ہونٹ کاٹ رہی ہو تو اس کے دو مطلب ہوتے ہیں نمبر ایک وہ عورت آپ کی طرف راغب ہونا چاہتی ہے نمبر دو یا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے منفی جذبات کو روک رہی ہے

ماہرین نفسیات کے متابق جب کوئی عورت آپ کی طرف دیکھ کر اپنے ہونٹ کاٹ رہی ہو تو اس کے دو مطلب ہوتے ہیں

شوہر آفس سے سیدھا گھر آیا اور آتے ہی کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گیا اور بیوی سے کہا جلدی سے کچھ کھانے کو لاؤ بہت بھوک لگی ہے ۔ بیوی نے کہا آپ بیٹھیئے میں ابھی لاتی ہوں اور پھر وہ کھانا لینے کچن میں چلی گئی شوہر نے پھر آواز لگائی بیگم جلدی لاؤ بہت بھوک لگی ہے بیگم جلدی سے کھانا لائی اور ٹیبل پر سجا دیا شوہر نے پوچھا کیا بنایا ہے تو بیوی بولی دال چاول بنائے ہیں ۔ یہ سنتے ہی شوہر بولا ساری بھوک ہی ختم ہوگئی کچھ اچھا نہیں بنا سکتی جب بھی پوچھو کچھ نہ کچھ ایسا ہی بنایا ہوتا ہے ۔ کہ سنتے ہی بھوک اڑجاتی ہے مجھے نہیں کھانا لےجاؤ اس کو واپس ۔اتنے میں باہر دروازے پر دروازے پر دستک ہوئی شوہر اٹھا اور دروازہ کھولا سامنے ایک فقیر کھڑا تھا فقیر کہنے لگا کل سے کچھ نہیں کھایا بہت بھوکا ہوں کچھ کھانے کو ملے گا اللہ آپ کا بھلا کرے ۔ شوہر واپس مڑا اور وہی کھانا جو اسے بیوی نے دیا تھا سارا اٹھایا اور فقیر کو دے دیا فقیر کھانا دیکھتے ہی بہت خوش ہوا اور اس کے ہاتھ سے کھانا لیتے ہی وہیں زمین پر بیٹھ کر گیا اور پاگلوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑا وہ شخص وہیں کھڑا اس فقیر کو غور سے دیکھتا رہا جب فقیر کھانا کھا چکا تو اس کو دعائیں دیتا وہاں سے چلا گیا اور وہ دروازے پر کھڑا فقیر کو حیرانگی سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا کہ جس کھانے کو وہ برا کہہ رہا تھا وہی کھانا کسی کےلئے کتنی خوشی کا باعث بنا ۔ ماہرین نفسیات کے متابق جب کوئی عورت آپ کی طرف دیکھ کر اپنے ہونٹ کاٹ رہی ہو تو اس کے دو مطلب ہوتے ہیں نمبر ایک وہ عورت آپ کی طرف راغب ہونا چاہتی ہے نمبر دو یا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے منفی جذبات کو روک رہی ہے

ایک سے زیادہ مردو سے تعلق کرنیوالی عورت کی نشانی

ایک 50 سال کی اماں نے اپنے بوڑھے شوھر کو آواز دی کہ اے جی سنئیے گا یہ الماری کا شیشہ نھی کھل رھا ، بوڑھا شوھر آگۓ بڑھا اور کھولنے کی کوشش کی لیکن زیادہ کامیاب نہ ھو سکا ، جوان بیٹا آگے بڑھا ، ذرا سا زور لگایا آسانی سے کھل گیا اور بولا لو جی ، یہ بھی کویی مشکل کام تھا باپ مسکرایا اور بولا بیٹا یاد ھے جب تو بچہ تھا اور گھر کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا تھا تو میں جان بوجھ کر آھستہ آھستہ تیرے دروازے کھولنے میں اس طرح مدد کرتا تھا کہ تو سمجھے کہ دروازہ تو نے خود کھولا ھے تا کہ تیرے اندر اعتماد آیے ، تیرا دل نہ ٹوٹنے پاۓ اور تیری ھمت بڑھے باپ کی بات سننا تھی کہ جوان بیٹا متوجہ ھو گیا اور اسکی آنکھ سے آنسو جاری ھونا شروع ھو گے کوٹھے پر عورت کا جسم نہیں مردکا ایمان بکتا ہے جس کی قیمت بھی وہ خود ہی ادا کرتا ہے ۔ صرف ایک مرد عورت کی کمزوری ہوتا ہے جس کےلئے وہ مرمٹنے کو بھی تیار ہوجاتی ہے اس کےلئے ساری دنیا چھوڑ سکتی ہے حتیٰ کہ ماں باپ بھی اور وہ ہوتا ہے عورت کا من پسند مرد جس سے وہ ایک بار محبت کرلیتی ہے ۔ ایک وقت میں ایک سے زیادہ مردوں سے تعلق رکھنے عورت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ آپکو ٹائم اور ویلیو کم دیتی ہے اگر آپ اس سے رابطہ نہ کرو تو اسے بھی آپکی پرواہ نہیں ہوتی ۔ اور مشکل حالات میں آپکو طعنے دیگی جیسے غربت کا طعنہ اسکے علاوہ بات بات پر آپ سے جھگڑا کرنے کا بہانا ڈھونڈے گی ۔

Wednesday, November 24, 2021

بعض دفعہ انسان بے حد ٹوٹ جاتا ہے جب اسے لگتا ہے کہ اللہ نے اسے وہ شخص وہ شئے نہیں دی جس کا وہ طلبگار تھا وقتی ٹوڑ پھوڑ کبھی اسے اللہ کے قریب کردیتی ہے اور کبھی اس سے باغی ۔ لیکن وہ رب انسان کو بار بار یہ احساس دلاتاہے کہ اے میرے بندے تیرے حق میں میرا فیصلہ تیری چاہ سے بہتر تھا ۔ اللہ نے وقت کی یہ خوبی رکھی ہے کہ یہ رکتا نہیں اگر وقت رک جائے تو بہت سی تکالیف ایسی ہوتی ہیں جو ہم برداشت ہی نہ کرسکیں اور بہت سی خوشیاں ایسی ہوتی ہیں جو مذید مہربانیوں کو روک لیتی ہیں اللہ کی رحمت کا انسان کےلئے اس سے زیادہ کیا ثبوت ہوگا کہ خدا نے وقت کو ساکن نہیں کیا ۔ عورت کی طاقت اس کے جزبات میں ہوتی ہے طوائف جسم تو دے دیتی ہے مگر کبھی اپنے جذبات تک کسی بھی مرد کو پہنچنے نہیں دیتی جبکہ عام عورت جب محبت کرتی ہے تو سب سے پہلے اپنے جذبات دیتی ہے وہ جسم دے یا نہ دے مگر اس کے آنسو اس کی خوشی اس کی دوسری عورتوں سے جلن اور دعائیں بس اسی انسان سے منسوب ہوتی ہیں جس سے وہ محبت کرتی ہے ۔ جانتے ہو کہ اذیت کی انتہا کیا ہوتی ہے اکیلے میں پھوٹ پھوٹ کر رونا پھر صبر سے اپنی بکھری ہوئی ذات کو اپنی ہنسی میں سمیٹنا اور دنیا کے سامنے ایسے رہنا جیسے کبھی کوئی دکھ دیکھا ہی نہیں کوئی درد و غم سہا ہی نہیں اور غم کیا ہوتے ہیں یہ پتا ہی نہیں یہ ہوتی ہے اذیت کی انتہا اگر شریف اور بدکار عورت کی پہچان کرنا چاہتے ہو اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ تم عورت سے جنسی معاملات پر بات کرو اگر عورت شریف ہوگی تو اس کی نظریں جھک جائیں گی اور وہ جواب نہیں دیگی اگر عورت بدکار ہوگی تو وہ ان باتوں میں دلچسپی لے گی مسکرائے گی اور فوراً جواب دیگی ۔

Tuesday, February 9, 2021

سلطان محمود غزنوی اور درویش

سلطان محمود غزنوی اور درویش عزت شہرت اور اقتدار کا سورج جب بھی کسی مٹی کے بنے انسان پر طلوع ہو تا ہے تو مشتِ غبار حضرت انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ کر ہ ارض پر اس سے زیا دہ خو ش قسمت طاقتور اور عقل و شعور کا اور کوئی مالک نہیں ہے اور پھر اِس نشے میں غرق وہ ناکامی کمزوری یا شکست بھو ل جاتاہے لیکن جب قدرت ایسے انسان کو ٹھو کر لگا تی ہے اوقات یا د دلاتی ہے تو پھر یہ اقتدار کے k2سے نیچے بھی اُترتا ہے اور دائیں بائیں بھی دیکھتا ہے ایسا ہی ایک کمزور لمحہ تاریخ انسانی کے عظیم فاتح سلطان محمود غزنوی پر بھی آیا محمود غزنوی جو سمجھتا تھا کہ پوری کائنات اُسی کے دم سے دھڑکتی ہے اُس کی اپنی نبض ڈوبنا شروع ہو گئی اور پھر سلطا ن محمو د غزنوی جیسا عظیم پر جلال فاتح ایک خاک نشین درویش کے در پر سوالی بن کے کھڑا تھا ۔ سلطان محمود ہندوستان پر کئی کامیاب حملے کر چکا تھا لیکن ایک شہر میں آکر فتح اُس سے روٹھ چکی تھی ناکامی بار بار اُس کامنہ چڑا رہی تھی کئی کوششوں کے با وجود سومنات کی بت شکنی کر نے میں ناکام رہا تھا ناکامی کے بعد اُس نے امید بھری نظروں سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا سہا رے ڈھونڈنا شروع کر دیئے ۔ مشکل کے اس وقت میں اسے ایک صاحب کرامت درویش کا پتہ چلا جس کی دعائیں با رگاہ الٰہی میں قبول ہو تی تھیں لیکن با دشاہ وہاں جانا تو ہین سمجھ رہا تھا اِ س لیے اُس نے سوچا پہلے درویش کی ولا یت کو آزمایا جا ئے اگر وہ اس آزمائش کی کسو ٹی پر پورا اُتر ے تو پھر اُس سے مدد ما نگی جائے اب سلطان نے اپنے خاص غلام ایاز کو بلا یا اور کہا میں ایک صاحب کرامت بزرگ سے ملنا چاہتا ہوں لوگوں کے بقول اُس کا دوسرا ثانی کر ہ ارض پر موجود نہیں ہے لیکن میں اُس سے ملاقا ت سے پہلے اُس کے روحا نی کمالات اور مقام کا امتحان لینا چاہتا ہوںاِس کے لیے تمام انتظامات تم کرو گے یہ تمام خفیہ طو رپر ہو نگے خدام اور کنیزوں کو ساتھ لیا جائے گا ہم اُس کی درگا ہ سے کچھ دور قیام فرمائیں گے ایاز نے سلطان کے حکم کی تعمیل شروع کر دی اب سلطان کنیزوں غلاموں اور ایاز کے ساتھ اُس درویش کی طرف روانہ ہوا اور قریب جاکر خیمے لگا دئیے‘ خیمے لگ گئے تو سلطان نے درویش کی طرف اپنے چند آدمی روانہ کئے اور انہیں یہ پیغام بھجوایا ‘خدا کا فرمان ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اُس کے رسولوں کی اطاعت کرو اُس کے بعد حاکم وقت کی اطاعت کرو پھر میرا سلام دینا اور کہنا سلطا ن محمود غزنوی نے آپ کو یاد کیا ہے ۔ درویش نے جب با دشاہ کا پیغام سنا تو ادائے بے نیازی سے فرمایا مجھے اللہ نے با دشاہ کی آمد کی اطلاع پہلے ہی دے دی ہے دوسری با ت اُس کے پیغام کی ہے تو میں اللہ کی اطاعت میں اس قدر گم ہوں کہ مجھے کسی اور کی اطاعت کا ہوش ہی نہیں ہے اِن حالات میں امیر کی اطاعت کی پرواہ بھی نہیں ہے اِس لیے با دشاہ کو ضرورت ہے تو وہ خو د فرش نشین کے پاس آجائے سلطا ن محمود غزنوی نے جب یہ پیغام سنا تو برملا پکا ر اُٹھا یہ واقعی کوئی صاحب کرامت کامل بزرگ ہیں غلام ایاز نے ادب سے کہا شہنشاہ حضور میں تو پہلے ہی فکر مند تھا کہ کہیں یہ بزرگ آپ کے پاس آنے سے انکار ہی نہ کر دیں کیو نکہ میرا دل گوا ہی دے رہا تھا کہ یہ کو ئی اللہ کے حقیقی بے نیاز بزرگ ہیں ایاز کی با ت سن کر محمود نے فیصلہ کیا کہ درویش وقت کی با رگا ہ میں بنفس نفیس جایا جا ئے اب بادشاہ نے ایاز کو حکم دیا کہ میری جگہ وہ شاہی لبا س پہن لے اور خود ایاز کا غلامانہ لبا س محمود نے پہن لیا اور صحت مند کنیزوں کو مردانہ لباس پہنا دیا گیا اور سب کو حکم جا ری کیا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں اور ایازکو تا کید کی کہ وہ فقیر کے حضور بطو ربا دشاہ پیش ہو گا اور محمود بطور غلام پیش ہو گا بادشاہ ابھی بھی بزرگ کی ولا یت آزمانے کے چکر میں تھا اب جب ایاز اور محمود درویش کے دربار میں پہنچے تو ایاز نے بادشاہوں کی طرح سلام کیا اب درویش نے ایاز کے سلام کا جواب تو دیا لیکن اصل تو جہ محمود کو دی ایاز کو تو جہ نہ دی زیا دہ گفتگو محمود سے کی آخر محمود نے کہا حضرت آپ ہما رے با دشاہ پر تو جہ کیوں نہیں دے رہے تو درویش نے دھیمے دلنشیں لہجے میں فرمایا میں تیرے بادشاہ سے نہیں تجھ سے با ت کر نا چاہتا ہوں محمود نے حیرت سے پو چھا حضرت کیوں ؟ تو درویش نے گہری نظروں اور تبسم بھرے لہجے میں کہا اِس لیے کہ تمہا را بادشاہ چند لمحوںکا ہے اور اُسے مجھ سے کچھ دریا فت بھی نہیں کر نا لہٰذا میں اس سے بات کیا کروں محمو د حیرت سے بولا حضور میں آپ کی با ت سمجھا نہیں تو درویش کے لہجے میں اب ہلکا سا جلال آگیا اورکہا فریب کا جال تو بن سکتے ہو مگر میری آسان بات نہیں سمجھ سکتے تم نے میرا امتحان لینے کے لیے اپنے غلام کو شاہی لباس پہنا کر بادشاہ بنایا ہوا ہے تا کہ تم مجھے اپنے سامنیشرمندہ کرسکے لیکن یہ تمہا ری حما قت ہے تو ایسے ہزاروں شاطرانہ جال بن لے میرا خدا مجھے سر خرو ہی کر ے گا با دشاہ اپنے ہی عرق ندامت میں ڈوب گیا اور شرمندہ معذرت خوا ہانہ لہجے میں بو لا میں نے جال ضرور بچھا یا مگر آپ جیسا شہبا ز میرے جال میں نہیں پھنس سکا پھر درویش نے پر جلال آواز میں کہا اِ ن غیر محرم عورتوں کو با ہر نکال دو تا کہ تمہارے ساتھ کو ئی بات کی جا سکے محمو د نے شرمندہ ہو کر کنیزوں کو با ہر بھیج دیا تو درویش نے دعا دی اور کہا خدا تمہا ری عاقبت سنوار دے محمود نے آپ کی خدمت میں اشرفیوں کی بو ری پیش کی تو فقیر نے کہا پہلے تم میر ی یہ خشک روٹی کھا ئو بادشاہ نے روٹی منہ میں ڈالی مگر کوشش کے با وجود اُسے نگل نہ سکا معذرت کی کہ روٹی مجھ سے نگلی نہیں جا رہی اب درویش نے فرمایا جس طرح میری خشک روٹی تم نہیں نگل سکتے اِسی طرح تمہا ری اشرفیاں میرے حلق میں پھنس جا ئیں گی لہٰذا اِن کو واپس لے جائو با دشاہ نے کہیں زیا دہ منت سما جت کی لیکن بے نیاز درویش نے انکار کیا پھر با دشاہ نے دعا کی درخواست کی کہ دعا کر یں خدا مجھے سومنات کا قلعہ فتح کرنا نصیب کر ے درویش با کمال نے دعا فرمائی اور اپناپیراہن با دشاہ کو دیا اور پر جلال لہجے میں کہا اب جب تم حملے کی غرض سے ہندوستان جائو تو نماز کے بعد میرا یہ پیراہن ہاتھ میں پکڑ کر خدا کی با رگاہ میں دعا کر نا خالق کائنات تمہیں عظیم الشان فتح سے ہمکنا ر کر ے گا اور پھر ایسا ہی ہوا محمو دہندوستان گیا تو درویش خدا کے پیرا ہن کی بدولت فاتح سومنا ت بن کر لوٹا اور آنے کے فورا بعد درویش کی با رگاہ میں حاضر ہو کر شکریہ ادا کیا بہت سارے تحائف اور اشرفیاں پیش کیں اور درخواست کی کہ کو ئی حکم ہو تو میں بجا لا نے میں خو شی محسوس کروں گا سلطان نے فقیر کی خانقاہ کی بہت زیا دہ تعریف کی تو بے نیاز فقیر نے فرمایا محمود تم اتنی وسیع و عریض سلطنت کے اکلوتے وارث ہو دنیا جہاں کی نعمتیں تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو چکی ہیں اِس کے باوجود تمہا ری ہو س کم نہیں ہو رہی وسیع و عریض سلطنت کے ہو تے ہو ئے تم پھر بھی درویش کی جھو نپڑی پر نظر رکھتے ہو با دشاہ شرمندہ ہوا اور رخصت ہو نے لگا تو درویش اُس کے احترام میں کھڑے ہو گئے محمود بو لا حضرت جب میں پہلے حاضر ہوا تو آپ نے یہ عزت مجھے بالکل بھی نہیں دی اب کیا وجہ ہے تو آپ نے فرمایا پہلے تمہا رے ساتھ شاہی غروراور جلال تھا اور تم میرا امتحان لینے آئے تھے جبکہ اِس بار تمہارا ظاہر و با طن عاجزی انکساری سے بھرا ہوا ہے اِس لیے اب تمہا ری تعظیم لا زم ہو گئی ہے بادشاہ سلطان محمود غزنوی جس درویش کے در پر دامن مراد پھیلا ئے حاضر ہوا وہ اپنے وقت کے مشہور و معروف حضرت صاحب ولایت کرامت بزرگ حضرت ابو الحسن خر قانی ؒ تھے جو روحانی فیض کے لیے حضرت با یزید بسطامی ؒ کے مزار پر سالوں سال حاضر ہو تے رہے اُن سے آپ کا خصوصی روحانی تعلق تھا ۔ 5 عزت شہرت اور اقتدار کا سورج جب بھی کسی مٹی کے بنے انسان پر طلوع ہو تا ہے تو مشتِ غبار حضرت انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ کر ہ ارض پر اس سے زیا دہ خو ش قسمت طاقتور اور عقل و شعور کا اور کوئی مالک نہیں ہے اور پھر اِس نشے میں غرق وہ ناکامی کمزوری یا شکست بھو ل جاتاہے لیکن جب قدرت ایسے انسان کو ٹھو کر لگا تی ہے اوقات یا د دلاتی ہے تو پھر یہ اقتدار کے k2سے نیچے بھی اُترتا ہے اور دائیں بائیں بھی دیکھتا ہے ایسا ہی ایک کمزور لمحہ تاریخ انسانی کے عظیم فاتح سلطان محمود غزنوی پر بھی آیا محمود غزنوی جو سمجھتا تھا کہ پوری کائنات اُسی کے دم سے دھڑکتی ہے اُس کی اپنی نبض ڈوبنا شروع ہو گئی اور پھر سلطا ن محمو د غزنوی جیسا عظیم پر جلال فاتح ایک خاک نشین درویش کے در پر سوالی بن کے کھڑا تھا ۔ سلطان محمود ہندوستان پر کئی کامیاب حملے کر چکا تھا لیکن ایک شہر میں آکر فتح اُس سے روٹھ چکی تھی ناکامی بار بار اُس کامنہ چڑا رہی تھی کئی کوششوں کے با وجود سومنات کی بت شکنی کر نے میں ناکام رہا تھا ناکامی کے بعد اُس نے امید بھری نظروں سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا سہا رے ڈھونڈنا شروع کر دیئے ۔ مشکل کے اس وقت میں اسے ایک صاحب کرامت درویش کا پتہ چلا جس کی دعائیں با رگاہ الٰہی میں قبول ہو تی تھیں لیکن با دشاہ وہاں جانا تو ہین سمجھ رہا تھا اِ س لیے اُس نے سوچا پہلے درویش کی ولا یت کو آزمایا جا ئے اگر وہ اس آزمائش کی کسو ٹی پر پورا اُتر ے تو پھر اُس سے مدد ما نگی جائے اب سلطان نے اپنے خاص غلام ایاز کو بلا یا اور کہا میں ایک صاحب کرامت بزرگ سے ملنا چاہتا ہوں لوگوں کے بقول اُس کا دوسرا ثانی کر ہ ارض پر موجود نہیں ہے لیکن میں اُس سے ملاقا ت سے پہلے اُس کے روحا نی کمالات اور مقام کا امتحان لینا چاہتا ہوںاِس کے لیے تمام انتظامات تم کرو گے یہ تمام خفیہ طو رپر ہو نگے خدام اور کنیزوں کو ساتھ لیا جائے گا ہم اُس کی درگا ہ سے کچھ دور قیام فرمائیں گے ایاز نے سلطان کے حکم کی تعمیل شروع کر دی اب سلطان کنیزوں غلاموں اور ایاز کے ساتھ اُس درویش کی طرف روانہ ہوا اور قریب جاکر خیمے لگا دئیے‘ خیمے لگ گئے تو سلطان نے درویش کی طرف اپنے چند آدمی روانہ کئے اور انہیں یہ پیغام بھجوایا ‘خدا کا فرمان ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اُس کے رسولوں کی اطاعت کرو اُس کے بعد حاکم وقت کی اطاعت کرو پھر میرا سلام دینا اور کہنا سلطا ن محمود غزنوی نے آپ کو یاد کیا ہے ۔ درویش نے جب با دشاہ کا پیغام سنا تو ادائے بے نیازی سے فرمایا مجھے اللہ نے با دشاہ کی آمد کی اطلاع پہلے ہی دے دی ہے دوسری با ت اُس کے پیغام کی ہے تو میں اللہ کی اطاعت میں اس قدر گم ہوں کہ مجھے کسی اور کی اطاعت کا ہوش ہی نہیں ہے اِن حالات میں امیر کی اطاعت کی پرواہ بھی نہیں ہے اِس لیے با دشاہ کو ضرورت ہے تو وہ خو د فرش نشین کے پاس آجائے سلطا ن محمود غزنوی نے جب یہ پیغام سنا تو برملا پکا ر اُٹھا یہ واقعی کوئی صاحب کرامت کامل بزرگ ہیں غلام ایاز نے ادب سے کہا شہنشاہ حضور میں تو پہلے ہی فکر مند تھا کہ کہیں یہ بزرگ آپ کے پاس آنے سے انکار ہی نہ کر دیں کیو نکہ میرا دل گوا ہی دے رہا تھا کہ یہ کو ئی اللہ کے حقیقی بے نیاز بزرگ ہیں ایاز کی با ت سن کر محمود نے فیصلہ کیا کہ درویش وقت کی با رگا ہ میں بنفس نفیس جایا جا ئے اب بادشاہ نے ایاز کو حکم دیا کہ میری جگہ وہ شاہی لبا س پہن لے اور خود ایاز کا غلامانہ لبا س محمود نے پہن لیا اور صحت مند کنیزوں کو مردانہ لباس پہنا دیا گیا اور سب کو حکم جا ری کیا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں اور ایازکو تا کید کی کہ وہ فقیر کے حضور بطو ربا دشاہ پیش ہو گا اور محمود بطور غلام پیش ہو گا بادشاہ ابھی بھی بزرگ کی ولا یت آزمانے کے چکر میں تھا اب جب ایاز اور محمود درویش کے دربار میں پہنچے تو ایاز نے بادشاہوں کی طرح سلام کیا اب درویش نے ایاز کے سلام کا جواب تو دیا لیکن اصل تو جہ محمود کو دی ایاز کو تو جہ نہ دی زیا دہ گفتگو محمود سے کی آخر محمود نے کہا حضرت آپ ہما رے با دشاہ پر تو جہ کیوں نہیں دے رہے تو درویش نے دھیمے دلنشیں لہجے میں فرمایا میں تیرے بادشاہ سے نہیں تجھ سے با ت کر نا چاہتا ہوں محمود نے حیرت سے پو چھا حضرت کیوں ؟ تو درویش نے گہری نظروں اور تبسم بھرے لہجے میں کہا اِس لیے کہ تمہا را بادشاہ چند لمحوںکا ہے اور اُسے مجھ سے کچھ دریا فت بھی نہیں کر نا لہٰذا میں اس سے بات کیا کروں محمو د حیرت سے بولا حضور میں آپ کی با ت سمجھا نہیں تو درویش کے لہجے میں اب ہلکا سا جلال آگیا اورکہا فریب کا جال تو بن سکتے ہو مگر میری آسان بات نہیں سمجھ سکتے تم نے میرا امتحان لینے کے لیے اپنے غلام کو شاہی لباس پہنا کر بادشاہ بنایا ہوا ہے تا کہ تم مجھے اپنے سامنیشرمندہ کرسکے لیکن یہ تمہا ری حما قت ہے تو ایسے ہزاروں شاطرانہ جال بن لے میرا خدا مجھے سر خرو ہی کر ے گا با دشاہ اپنے ہی عرق ندامت میں ڈوب گیا اور شرمندہ معذرت خوا ہانہ لہجے میں بو لا میں نے جال ضرور بچھا یا مگر آپ جیسا شہبا ز میرے جال میں نہیں پھنس سکا پھر درویش نے پر جلال آواز میں کہا اِ ن غیر محرم عورتوں کو با ہر نکال دو تا کہ تمہارے ساتھ کو ئی بات کی جا سکے محمو د نے شرمندہ ہو کر کنیزوں کو با ہر بھیج دیا تو درویش نے دعا دی اور کہا خدا تمہا ری عاقبت سنوار دے محمود نے آپ کی خدمت میں اشرفیوں کی بو ری پیش کی تو فقیر نے کہا پہلے تم میر ی یہ خشک روٹی کھا ئو بادشاہ نے روٹی منہ میں ڈالی مگر کوشش کے با وجود اُسے نگل نہ سکا معذرت کی کہ روٹی مجھ سے نگلی نہیں جا رہی اب درویش نے فرمایا جس طرح میری خشک روٹی تم نہیں نگل سکتے اِسی طرح تمہا ری اشرفیاں میرے حلق میں پھنس جا ئیں گی لہٰذا اِن کو واپس لے جائو با دشاہ نے کہیں زیا دہ منت سما جت کی لیکن بے نیاز درویش نے انکار کیا پھر با دشاہ نے دعا کی درخواست کی کہ دعا کر یں خدا مجھے سومنات کا قلعہ فتح کرنا نصیب کر ے درویش با کمال نے دعا فرمائی اور اپناپیراہن با دشاہ کو دیا اور پر جلال لہجے میں کہا اب جب تم حملے کی غرض سے ہندوستان جائو تو نماز کے بعد میرا یہ پیراہن ہاتھ میں پکڑ کر خدا کی با رگاہ میں دعا کر نا خالق کائنات تمہیں عظیم الشان فتح سے ہمکنا ر کر ے گا اور پھر ایسا ہی ہوا محمو دہندوستان گیا تو درویش خدا کے پیرا ہن کی بدولت فاتح سومنا ت بن کر لوٹا اور آنے کے فورا بعد درویش کی با رگاہ میں حاضر ہو کر شکریہ ادا کیا بہت سارے تحائف اور اشرفیاں پیش کیں اور درخواست کی کہ کو ئی حکم ہو تو میں بجا لا نے میں خو شی محسوس کروں گا سلطان نے فقیر کی خانقاہ کی بہت زیا دہ تعریف کی تو بے نیاز فقیر نے فرمایا محمود تم اتنی وسیع و عریض سلطنت کے اکلوتے وارث ہو دنیا جہاں کی نعمتیں تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو چکی ہیں اِس کے باوجود تمہا ری ہو س کم نہیں ہو رہی وسیع و عریض سلطنت کے ہو تے ہو ئے تم پھر بھی درویش کی جھو نپڑی پر نظر رکھتے ہو با دشاہ شرمندہ ہوا اور رخصت ہو نے لگا تو درویش اُس کے احترام میں کھڑے ہو گئے محمود بو لا حضرت جب میں پہلے حاضر ہوا تو آپ نے یہ عزت مجھے بالکل بھی نہیں دی اب کیا وجہ ہے تو آپ نے فرمایا پہلے تمہا رے ساتھ شاہی غروراور جلال تھا اور تم میرا امتحان لینے آئے تھے جبکہ اِس بار تمہارا ظاہر و با طن عاجزی انکساری سے بھرا ہوا ہے اِس لیے اب تمہا ری تعظیم لا زم ہو گئی ہے بادشاہ سلطان محمود غزنوی جس درویش کے در پر دامن مراد پھیلا ئے حاضر ہوا وہ اپنے وقت کے مشہور و معروف حضرت صاحب ولایت کرامت بزرگ حضرت ابو الحسن خر قانی ؒ تھے جو روحانی فیض کے لیے حضرت با یزید بسطامی ؒ کے مزار پر سالوں سال حاضر ہو تے رہے اُن سے آپ کا خصوصی روحانی تعلق تھا ۔ (

Saturday, February 6, 2021

بھکاری عورت

هﻢ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﻨﮕﮯریسٹو ﺭﯾﻨﭧ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎﮐﮭﺎ ﭼﮑﮯ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﺎﻭﺍﻓﺮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﯾﺎ ﺩﻭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯﻟﺌﮯﮐﺎﻓﯽ ﮨﻮ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯﺑﺮﺗﻦ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﻭﯾﭩﺮﺳﮯﻭﺍﻓﺮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﮐﮩﺎ ''''’ﺍﺳﮯ ﭘﯿﮏ ﮐﺮﺩﻭ''" ﻭﯾﭩﺮ ﻧﮯ ﻃﻨﺰﯾﮧﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟﮐﮩﺎ’ﺍﺱ ﮐﻮ‘؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯﭘُﺮﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ، ﺟﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯﻣﯿﺮﯼ ﺍﺱﺣﺮﮐﺖ ﭘﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻘﻮﯾﺖ ﺩﮦ ﻓﻘﺮﮦ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻥﭘﺮﻭﺍﮦ ﮐﺮﺗﺎ ہے ﺑﻞ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ کے ﺑﻌﺪ،،،،،، ﻭﯾﭩﺮ ﻧﮯ ﭘﯿﮏ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮈﺑﮧ ﻣﯿﺰ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ، ﺳﺐ ﺍﯾﮏﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯﮐﻮﻥ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ؟؟؟؟؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯﮈﺑﮧ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﮐﮩﺎ’ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﻟﺌﮯ ﮨﻮﮞ‘۔ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ایک ﭼﻮﮎ ﺳﮯﺫﺭﺍ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺩﺭﯼ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭﭘﺎﺱ ﮨﯽ ﺍﺱﮐﺎﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﮐﮭﯿﻞﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯﭘﺎﺱ ﮔﺎﮌﯼ ﺭﻭﮐﯽ اﻭﺭ ﮈﯾﺶ ﺑﻮﺭﮈ ﭘﺮ ﭘﮍﺍﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮈﺑﮧ ﺳﺎﺗﮫﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﺩﮮ ﮐﺮ،ﺷﯿﺸﮧ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﮐﮩﺎ،،،، ﯾﮧ ﺍﺳﮯ ﭘﮑﮍﺍ ﺩﯾﮟ!!! ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﮑﮍﺍﻧﮯ ﮐﮯﻟﺌﮯﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﺗﻮﺍُﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﻣﯽﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯﭘﮑﮍ ﮐﺮﺍﺱﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯﮐﮩﺎ،،،، ﺍﻟﻠﮧ ﺑﮭﻼ ﮐﺮﮮ!!!! ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﮐﮯﺑﮭﻮﮐﮯ ﺗﮭﮯ، ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﻟﮯﺍٓﺗﮯ ﻭﮦ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯﭘﯿﮑﭧﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﻟﮕﯽ،،،، ﻣﯿﮟ ﻧﮯﻣﮍ ﮐﺮﺳﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ (ﺍﺏﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺟﻮﻣﯿﺮﯼ ﺗﮭﯽ) ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ۔’ﮨﻢ ﻭﯾﭩﺮ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟﺍﻣﯿﺮ ﻧﻈﺮ ﺍٓﻧﮯ ﮐﯽﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼﻧﯿﮑﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ،،،، ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﻟﻠﮧﮐﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮨﯿﮟ ﻭﯾﭩﺮﯾﺎﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﻟﻮﮒ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻋﻤﻞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺣﺼّﮧ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺭﺍﺋﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﻮﺭﮮ ﻋﻤﻞ ﺳﮯﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﺰﺍ ﯾﺎ ﺟﺰﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ،،،،،، اللہ ہم سب کو غریبوں کی مدد کرنے کی توفیق دے،،،آمین

حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کا ایمان افروز واقعہ

 ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ

ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺍﺩﮨﻢ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻓﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ۔

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺍﺩﮬﻢ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: پانچ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﻮ۔ ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﺮﻭ۔ ﺗﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﯽ۔

ﺍﻭﻝ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﺭﺯﻕ ﻣﺖ ﮐﮭﺎ۔

ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﮍﯼ ﻣﺸﮑﻞ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺯﺍﻕ ﺗﻮ ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ! ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﺐ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺭﺯﻕ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮐﺮﮮ

ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣُﻠﮏ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﻭ۔ 

ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺑﻮﻻ ﺗﻤﺎﻡ ﻣُﻠﮏ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﻧﮑﻠﻮﮞ۔

ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﻮ۔

ﺗﯿﺴﺮﯼ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﺮ ﺟﮩﺎﮞ ﻭﮦ ﺗﺠﮭﮯ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﮯ۔

ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﺐ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﺯﻕ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﮮ۔

ﭼﻮﺗﮭﮯ

ﯾﮧ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﻠﮏ ﺍﻟﻤﻮﺕ ﺗﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﺫﺭﺍ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﮯ ﺩﮮ۔

ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺑﻮﻻ ﻭﮦ ﺑﮭﻼ ﻣﮩﻠﺖ ﮐﺐ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ 

ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮﯾﮧ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮ ﻟﮯ۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﻮ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﺳﻤﺠﮫ،

ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﺣﮑﻢ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺯﺥ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﺅ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ، 

ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ 

ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺏ ﺧﻮﺩ ﺳﻮﭺ ﻟﮯ ﮐﯿﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﺗﺠﮭﮯ ﺯﯾﺒﺎ ﮨﮯ۔

ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺍﺩﮬﻢ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺗﺎﺋﺐ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔

Badshah Aur Ghulam | sabaq amoz Qissa | بادشاہ اور غلام

 بادشاہ اور غلام


بادشاہ سلامت کا دربار لگا ہے ۔ حاجت مند قطار اندرقطار پیش ہو رہے ہیں ۔ بادشاہ ہر ایک کی درخواست پر حاجت مند کی خواہش کے مطابق حکم صادر کررہا ہے اور ڈھیروں دعا سمیٹ رہا ہے۔ اتنے میں ایک سوداگر حاضر ہوتا ہے۔ وہ بادشاہ کی وقار اور خوشی و خوشنودی کی خاطر چند غلام اپنت ساتھ لایا ہے تاکہ بادشاہ کی خدمت گزاری کے لیے اُنہیں پیش کر سکے۔ وہ بادشاہ سے درخواست پزیر ہوتا ہے:

           " بادشاہ سلامت!  رب الرحمان ورحیم آپکا وقار واختیار بلند وبالا کرے! میں چند غلام آپ کے حضور پیش کرنے کے لیے لایا ہوں آپ انہیں شرف بازیابی بخشے اور جو غلام آپ پسند فرمائیں اپنی خدمت و نیازمندی کے لیے اپنے پاس رکھ لیں۔میں جانتا ہوں کہ آپ کے پاس غلاموں کی کمی نہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے لیے بڑی سعادت مندی اعزاز و فخر ہوگا ۔اگر میرا پیش کردہ غلام آپکے احکامات کی بجاآوری کے لیے آپ کے دربارِ شاہی میں مامور ہوگا۔"

            بادشاہ اس سوداگر کی درخواست پر زیر لب مسکراتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ:

             " ہر ایک غلام کو باری باری میری خدمت میں پیش کیا جائے ۔ میں ان سے سوالات کروں گا اور جس کے جوابات سے متاثر ہوا ان کےگئے نے دربار میں رکھ لوں گا"

ہر ایک کو بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا،  بادشاہ نے ہر ایک سے سوالات کیے لیکن کسی کی جواب سے مطمئن نہ ہوا  ۔ بادشاہ نے سوداگر سے کہاکہ مجھے ان میں سے کوئی بھی مجھے مطمئن نہ کرسکا اس لیے اگر کوئی اور ہے تو بھیج دو اگر نہیں تو پھر انکو بھی لے جاؤ۔ بادشاہ سلامت ایک اور غلام باہر موجود تو ہے اور وہ ضد کرکے میرے ساتھ یہاں تک آیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس  اعلیٰ وارفع دربار شاہی کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے میں نے اسے اپکی خدمت میں پیش نہیں کیا،  بادشاہ زوردار لہجے میں سوداگر سے کہتا ہے۔ 

        "تم نے یہ کیسے فیصلہ کر لیا کہ وہ دربار شاہی کے قابل نہیں؟؟؟  انہیں میری خدمت میں فوراً پیش کرو۔ غلام کو بادشاہ کے روبرو پیش کیا گیا،  غلام نے سرجھکائے سلام کیا۔ بادشاہ نے دوسروں کی طرح اس سے بھی نام پوچھا،  غلام نے جواب دیا بادشاہ سلامت آپ کو غلام کو جس نام سے چاہیں یاد فرما لیں ، غلام تو غلام ہی رہتا ہے اس کا کوئی اور نام کیا ہوسکتا ہے ۔"

بادشاہ پوچھتا ہے اچھا بتاؤ کھانے میں تم کو کیا پسند ہے؟ غلام جواب دیتا ہے " مالک کی مرضی جو کھلا دے  وہی میری پسندیدہ غزا ہوگی۔"

بادشاہ نے آخری سوال پوچھا " تمھاری کیا خواہش ہے فوراً پوری کی جائیگی ہم تمھارے جوابات سے خوش ہوئے۔"


"  غلام نے کہا بادشاہ سلامت میں ایک غریب اور مفہوم حال غلام ہوں نہ اختیار اپنا نہ ارادہ اپنا۔ اس لیے مجھے کوئی حق نہیں کہ کسی خواہش اور آرزو کو دل میں جگہ دوں۔ میری کوئی بھی طلب نہیں۔"


غلام کے جوابات سن کر بادشاہ نے ایک نعرہ تکبیر بلند کیا اور بیہوش ہوگئے۔

تمام درباری جمع ہوگئے افراتفری پھیلی ہوئی تھی،  حکیم طبیب بلائے گئے۔ ہر شخص فکرمند تھا۔ اور وہ سوداگر جو اس غلام  کو لایا تھا ازحد متفکر ہوکر ایک سائیڈ پر بیٹھا تھا۔اور دل ہی دل میں سوچتا تھا کہ میرا اندازہ درست تھا کہ یہ غلام دربار شاہی کے قابل نہیں اور اب اس غلام کا انجام کیا ہوگا؟؟؟؟ 


تھوڑی دیر بعد بادشاہ ہوش میں آتا ہے اور آنکھیں کھولتا ہے تمام درباریوں کی جان میں جان آجاتی ہے مگر بادشاہ سلامت پہلی نظر جس شخص پر ڈالتا ہے وہ وہی غلام ہے ۔ بادشاہ دیکھتا ہے کہ غلام اسی طرح کھڑا تھا نہ اس کی چہرے پر کوئی اداسی نہ پریشانی۔

اب بادشاہ تھوڑے توقف کے بعد لب کشا ہوتا ہے اور خودکلامی کرتے ہوئے قابل سماعت آواز میں کہتا ہے :


" اے ابراہیم ادھم افسوس ہے تم پر بلکہ افسوس صد ہزار افسوس ہے تجھ پر ! تو بھی اپنے رب کی غلامی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن تیرا مقام اس غلام سے بھی کم تر ہے ۔حالانکہ رب قادر وقدیر نے تجھے بادشاہت جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ تجھ سے تو غلام بدرجہا بہتر ہے کہ جس نے اپنے سارے اختیارات اپنے مالک کے سپرد کر دئیے اور تو اپنے اختیارات اپنے پاس رکھتا ہے۔"

اگرچہ بادشاہ سلامت ، بلخ کے سلطان اور عظیم المرتبت حکمران ابراہیم اودھم نے اس غلام کو اپنے مقربین میں شامل کر لیا تاہم اس کے دل و دماغ پر اس غلام کے جوابات کا جو اثر ہوا وہ ناقابل بیان تھا۔