Friday, December 6, 2019
خشک انار کا درخت
خشک انار کا درخت
ایک دفعہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ایک خشک انار کے نیچے تشریف فرما تھے ۔
آپ کیساتھ آپ کے بہت سے دوست بھی بیٹھے ہوے تھے ۔
آپ نے اپنے دوستوں سے فرمایا کہ میں تم کو ایک نشانی دینا چاہتا ہوں ۔ حاضرین نے عرض کی کہ وہ نشانی کونسی ھے ۔
آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا ۔ کہ اس درخت پر نظر ڈالو ۔ سب نے اس درخت کی طرف دیکھا تو وہ درخت حرکت میں آگیا
دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت سرسبز و شاداب ہو گیا ۔ اور اس درخت پر اس قدر پھل لگے کہ حاضرین بے اختیار ہو کر کہنے لگے ہم نے ایسا درخت پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ اور نہ ایسا میوہ دیکھا ھے ۔
پھر آپ نے فرمایا ۔ تم سب اس درخت سے باری باری ایک انار توڑو ۔ سب نے آپ کے حکم کے متابق درخت سے انار توڑنا شروع کے کچھ ہاتھوں میں انار آگۓ اور کچھ ایسے بھی تھے جو انار کی طرف ہاتھ بڑھاتے تو درخت کی ٹہنی اونچی ہو جاتی ۔ حاضرین امیرالمومنین سے دریافت کرنے لگے یا حضرت کچھ کے ہاتھ میں انار نہ آسکا اس کا سبب کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا ۔
جو میرے محب ہیں ان کے ہاتھ تو پہنچے ہیں اور جو میرے دشمن ہیں ان کے ہاتھ سے ٹہنی دور ہو گٸ بروز قیامت بھی ایسا ہی ہو گا ۔ جو میرے دوست ہونگے وہ میرے ساتھ جنت میں ہوں گےجب وہ میوے کی خواہش کریں گے درخت خودبخود جھک جاٸیں گے ۔ اور جو دشمن ہوں گے وہ جنت کی چیزوں سے محروم رہیں گے۔
H.A.Khan
Monday, November 4, 2019
بادشاہ کو وزیر کی نصیحت || پوشیدہ حکمت || سبق آموز واقعہ ||
بادشاہ کو وزیر کی نصیحت
پوشیدہ حکمت
خود کو عقل و دانش کا گہوارہ سمجھنے والا خود پسند خوشامد پسند عقل کل کا مالک ایک بادشاہ تھا ۔ جب کہ اس کا وزیر باتدبیر پڑھا لکھا اور تحمل مزاج اور سمجھدارتھا ۔ ایک دن چھری کانٹے سے پھل کھاتے ہوۓ بادشاہ کی انگلی زخمی ہو گٸ ۔ دلیر بادشاہ سلامت اپنا خون بہتا دیکھ کر پریشان ہو گیا ۔
وزیر نے کہا بادشاہ سلامت فکر کی کوٸی بات نہیں اس میں بھی اللّہ تعالیٰ کی کوٸی حکمت پوشہدہ ہوگی ۔ نازک مزاج بادشاہ سلامت چلا اٹھے میری انگلی کٹ گٸ ہے اور اسے اس میں کوٸی بہتری نظر آرہی ہے دروغہ ۔۔۔۔ دروغہ ۔۔۔۔۔ اسے جیل میں ڈال دو ۔ وزیر کو جیل میں ڈالنے لگے تو اس نے کہا کہ اس میں بھی میرے لۓ کوٸی بہتری ہو گی کچھ دنوں کے بعد بادشاہ کی انگلی ٹھیک ہو گٸ ۔ وزیر ابھی تک جیل میں تھا ۔بادشاہ سلامت ایک دن اکیلے جنگل کی طرف نکل گۓ اور واپسی پر راستہ بھٹک گۓ ۔ اور کسی دوسرے علاقے میں پہنچ گۓ ۔
وہاں کے وحشی لوگ بادشاہ سلامت کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گۓ ۔ سردار نے کہا اسے کمرے میں بند کر دو ۔۔۔ ہفتے کے دن اسکی قربانی ہوگی ۔ مقررہ دن جب بادشاہ سلامت کو قربانی کے لۓ چبوترے کی طرف لے جارہے تھے ۔ تو انکے مذہبی پروہت کی نظر بادشاہ کی انگی پر پڑی جس پر زخم کا نشان تھا ۔ پروہت نے جنگلیوں کے سردار کو مخاطب کرکے کہا ۔ کہ اسکی قربانی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ داغی ہے ۔ اس وقت نہ صرف بادشاہ کو آزاد کر دیا گیا ۔ بلکہ وہ وحشی لوگ بادشاہ کو ملک کی سرحد تک چھوڑ کر گۓ ۔ جب بادشاہ محل میں پہنچا تو اس نے فوراً وزیر با تدبیر کو رہا کردیا ۔ اور کہا کہ تم ٹھیک کہتے تھے کہ انگلی کٹنے سے اللّہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لۓ کوٸی بہتری پوشیدہ ہو گی ۔ زخم کے اس داغ کی وجہ سے آج میری جان بچ گٸ ۔ وزیر بولا بادشاہ سلامت آپکی جان تو بچی انگلی کے کٹنے سے اور میری جان بچی مجھے جیل میں ڈالے جانے کی وجہ سے ۔ خدانخواستہ میں آپ کے ساتھ ہوتا تو وہ لوگ میری قربانی کر دیتے ۔ دونوں کے منہ سے بے اختیار نکلا سچ ہے اللّہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔
درس حیات
اللّہ تعالیٰ کے ہر حکم میں ہمارے لۓ کوٸی نہ کوٸی بہتری ہوتی ہے ۔
x
شیخی خور || سبق آموز واقعہ || Urdu Moral Story ||
﷽
شیخی خور
ایک دفعہ کا ذکر ھے ایک سفلے اور شیخی خور آدمی کو کہیں سے دنبے کی ایک چکی کا ٹکڑا مل گیا ۔ وہ روزانہ صبح اٹھتے ہی اپنی مونچھیں دنمبے کی چکتی سے چکنی کرکے اکڑاتا اور امیروں اور دولت مندوں کی محفل میں جاکے بیٹھتا اور بڑے اکڑ کر بار بار کہتا ۔ آج تو بڑے مرغن کھاۓ ہیں بڑا مزہ آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ اسکی بات کا یقین کرلیتے ۔
جب جب وہ شخص اپنی جھوٹی امیری کا ڈھنڈھورا پیٹتا ۔اس کا معدہ اللّہ سے دعا کرتا۔۔ یا اللّہ اس شیخی خور کی حقیقت لوگوں پر ظاہر کردے ۔ آخر اللّہ نے اس کے معدے کی فریاد سن لی ۔ اور ایک روز اس کمینے کے مکان میں ایک بلی گھس آٸی اور دنبے کی چکی کا ٹکڑا منہ میں دبا کر بھاگ گٸ ۔ اس شخص کے بچے نے امیروں کی محفل میں جاکر اونچی آواز میں باپ کو اطلاع دی کہ ۔ دنبے کی چکی کا وہ ٹکڑا جس سے آپ روزانہ اپنی مونچھیں چکنی کیا کرتے تھے ایک بلی منہ میں دباکر بھاگ گٸ ۔میں نے اس کو پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر وہ بھاگ گٸ ۔
بچے کے یہ کلمات سننے تھے کہ اس آدمی کا رنگ فق ہو گیا محفل میں بیٹھے تمام لوگ بڑے حیران ہوۓ اور بعض توبے اختیار ہنس پڑے ۔ مگر کسی نے اس سے کچھ نہ کہا ۔ وہ خود ہی اتنا شرمندہ تھا کہ کسی سے آنکھیں نہ ملا سکا ۔ ان لوگوں نے اس کی ندامت دور کرنے کے لۓ اس کی خوب دعوتیں کیں اسے خوب کھلا پلاکر اس کا پیٹ بھرا ۔ اس نے لوگوں کا ایسا رویہ دیکھا تو شیخی چھوڑ کر سچاٸی کو اپنا لیا ۔
درس حیات
جھوٹ بہت بڑی لعنت ہے یہ ہمیشہ شرمندہ کرتا ھے ۔Monday, October 28, 2019
نکلی ہیرا
نقلی ہیرا
ایک یہودی کے پاس ایک مسلمان ہیرے تراشنے کا کام کرتا تھا ۔ جو اپنے کام میں ہنرمند اور نہایت ایماندار تھا۔ یہودی اس سنار کی کاری گری سے بے تہاشہ منافع کما رہا تھا مگر اسے مناسب معاوضہ نہیں دیتا تھا ۔ جسکی وجہ سے وہ بمشکل گھر کا خرچہ چلا پاتا تھا ۔ یونہی کام کرتے کرتے اس نے عمر گزار دی ۔اسکی بیٹی جوان ہو گٸ وہ اپنی قلیل آمدنی سے کچھ بھی جمع نہ کر سکا ۔ بیٹی کی شادی کے لۓ غریب سنار نے اس یہودی سے کچھ رقم بطور ادھار مانگی یہودی کروڑ پتی نے رقم ادھار دینے سے معزوری ظاہر کردی ۔ سنار ابنی قسمت کو برا بھلا کہتا گھر لوٹ آیا رقم ادھار نہ ملنے پر بیوی نے سخت ناراضگی اور طعنوں کے تیر برسا کر الگ استقبال کیا ۔ پریشان حال بچارہ ساری رات سوچتا رہا کہ اب کیا ہو گا دوسرے دن وہ کام کے لۓ دکان پر بھی نہ گیا بعد میں یہودی سنار کے بلانے پر جب وہ دکان پر پہنچا ۔تو اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی جو اس نے اس یہودی کے سامنے کھول کر رکھ دی اس میں قیمتی ہیرا دیکھ کر یہودی نے سوالیہ نگاہوں سے کاریگر سنار کی طرف دیکھاکاریگر بولا مالک یہ ہمارا خاندانی ہیرا ھے اسے ھمکو بیچنے اجازت نہیں ۔ آپ اسے گروی رکھ کر کچھ رقم دے دیں میں رقم واپس کر کے یہ ہیرا چھڑوا لوں گا ۔ یہودی راضی ہوگیا یہودی کی رقم سے کارگر نے اپنی بیٹی کی شادی کردی پھر دن رات کام کر کے قرضے کی رقم ادا کرنے لگ گیا قرضے کی آخری قسط ادا کرنے کے بعد کاریگر نے یہودی سے اپنے ہیرے کا مطالبہ کیا ۔ یہودی نے وہ ہیرا لاکر اس کے سامنے رکھ دیا ۔ ہیرا تراشنے والے کاریگر نے وہ ہیرا اس کے سامنے پانی میں رکھ دیا دیکھتے ہی دیکتے ہیرا گھل کر ختم ہو گیا ۔ کاریگر نے کہا مالک یہ مصری کی ایک ڈلی تھی جسے میں نے تراش کر ایک نایاب ہیرے کی شکل دے دی تھی ۔ کہ آپ جیسا سنار بھی دھوکا کھا گیا ۔ آپ نے میری عاجزی اور درخواست پر قرضہ نہ دیا جسکی وجہ سے مجھے یونہی آپ سے رقم نکلوانی پڑی
میں مسلمان ہوں اس لۓ بھاگا نہیں اور آپکی پاٸی پاٸی چکا کر سرخرو ہو گیا افسوس کہ آپ نے میری قدر نہ کی اس لۓ میں یہ نوکری چھوڑ کر جارہا ہوں کاریگر یہودی کو پریشان چھوڑ کر چل دیا
درس حیات
اللّہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کیا جاۓ ایسا کرنے سے معاشرے سے براٸیاں ختم ہو جاتیہیں
Wednesday, October 16, 2019
براٸی کی جڑ || ایک ظالم شخص کی کہانی || Urdu moral story ||
براٸی کی جڑ
ایک آدمی مخلوق خدا کو اذیّت دینے کی ترکیبیں سوچتا رہتا تھا ۔ ایک دن اس کو شرارت سوجھی اس نے اپنے گھر کے سامنے راستے میں لمبے لمبے کانٹوں والی جھاڑی لگا دی ۔ چند دنوں کے اندر اندر یہ جھاڑی خاصی بڑھ گٸ ہر چند لوگ اس سے بچ بچا کر نکلتے ۔ لیکن پھر بھی کوٸی نہ کوٸی کانٹا پاٶں کو زخمی کر دیتا اور کسی کا دامن تار تار کردیتا ۔ لوگوں نے اس کو بہت ملامت کیا کہ تو نے گھر کے سامنے یہ جھاڑی کیوں اگنے دی ۔ اب تو تکلیف کی انتہا ھو چکی ھے ۔ اسے اکھیڑ دے اس نے مسکرا کرنرمی سے کہا اچھا اکھیڑ دوں گا ۔چند دن اسی طرح اور گزر گۓ یہاں تک کہ اب جھاڑی نے آدھا راستہ گھیر لیا ۔ لوگوں نے مجبور ہو کر حاکم وقت کو شکایت کی ۔ اس نے فورًا اس شخص کو بلایا اسے ملامت کی برا بھلا کہا اور سختی سے اسے حکم دیا کہ اس جھاڑی کو اکھاڑ دو ۔ اس نے کہا ابھی حکم کی تعمیل وہ گی ۔ وہ حاکم وقت سے وعدہ کر کے چلا آیا ۔ اس نے جھاڑی پھر بھی نہ اکھیڑی ۔ اگر کوٸی اس طرف اسکی توجہ دلاتا تو کہہ دیتا کہ آج فرصت نہیں ھے کل یہ کام کروں گا ۔ اسی کل کل پر ٹالتے نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن جھاڑی اتنی بڑھ گٸ کہ اب اس کا ہٹانا آسان نہ رہا ۔ یہ درخت مضبوط ہو گیا اور اس کی جڑیں اتنی گہری ہو گٸیں کہ اب وہ ظالم اسے اکھیڑنے سے عاجزہو گیا ۔ درخت جوان ہوتا گیا اور اسے اکھاڑنے والا کمزور ہوتا گیا ۔
درس حیات
اسی طرح ہماری بری عادتیں اور گناہ کے کام ہیں۔ ان کی اصلاح میں جس قدر دیر کی جاۓ گی ۔ ان کی جڑیں مضبوط تر ہوتی چلی جاٸیں گی ۔ براٸی کو دور کرنے میں سستی سے کام مت لے ۔ ہر بری عادت کو خاردار جھاڑی سمجھ ۔اے! بے حس کاھل اٹھ اور اپنی پرانی بری عادتوں کی اصلاح کے لۓ تلوار اٹھا اور مردانہ وار حملہ کراور مثل حضرت حضرت علی شیرخدا کے اس دروازہ خیبر کو اکھاڑ دے ۔
Monday, October 14, 2019
بے وقوف چوہے اور ایک اونٹ کا قصہ || سبق آموز واقعہ || Urdu Moral Story ||
بے وقوف چوہا اور چالاک اونٹ
ایک اونٹ کسی جگہ پر کھڑا تھا ۔ اور اس اسکی مہار زمین گری ہوٸی تھی ۔ چوہے نے اُونٹ کی مہار لے کر کھنچا ۔ اُونٹ چلنے لگا ۔ چوہے نے دل میں خیال کیا کہ میں تو بڑا شہ زور ہوں کہ اُونٹ میرے کھینچنے پر میرے پیچھے چل پڑاھے ۔
اُونٹ نے جب چوہے کی یہ حرکت دیکھی تو اسے مزید بے وقوف بنانے کی خاطر اپنے آپ کو اس کا تابع کردیا ۔ چوہے نے اُونٹ کی نکیل کو اپنے منہ میں مضبوطی سے پکڑ لیا اور آگے آگے غرور سے اکڑتے ہوۓ چلنے لگا ۔ پیچھے پیچھے اُونٹ مثل تابعدار غلام چلنے لگا ۔ چوہے نے دل میں کہا" یہ مجھے آج پتا چلا کہ میں کون ہوں اور میرے اندر اتنی جان ھے کہ اونٹ بھی میری پیروی کرنے پر مجبور ھے ۔
اور اونٹ دل میں کہہ رہا تھا کہ بچو! کوٸی بات نھیں ابھی تھوڑی دیر میں تجھے تیری اوقات کا پتا چل جاۓ گا کہ توں کیا چیز ھے ؟ دونوں اسی طرح رواں دواں تھے کہ راستے میں ایک ندی آگٸ ۔ اب تو رہبر چوہے کے اوسان خطا ہو گۓ اور وہ سوچنے لگا کہ اب تک میں نے اس عظیم القامت جسم والے کی رہبری کی ھے اور مجھے فخر تھا کہ ایک اونٹ میرا تابع ھو گیا ھے ۔ مگر اب پانی میں رہبری کس طرح کروں یہ سوچتے ہوۓ چوہا ندی پر جا کر کھڑا ہو گیا ۔ اونٹ نے تجاہل عارفانہ سے پوچھا ۔ اے میرے جنگل بیابان کے رہبر! توں اس قدر ڈر کیوں گیا؟ یہ توقف او حیرانگی کیسی مردانہ وار دریا کے اندر قدم رکھو اب تم کس فکر میں ڈوبے ہوۓ ھو اور یہ حیرت کس بات کی ؟ کچھ مردانگی اور جوانمردی کے جوہر دکھاٶ ۔ تم ہمارے رہنما ہو چلو آگے بڑھو اور دریا میں اترو تاکہ" تمہارے چودہ طبق روشن ہوں" چوہے نے لرزتی ہوٸی آواز میں جواب دیا اتروں کیا خاک ندی بہت گہری معلوم ہوتی ھے ۔
اونٹ نے کہا کہ اچھا میں دیکھتا ہوں کہ پانی کتنا گہرا ھے یہ کہہ کر اونٹ پانی میں اتر گیا اور کہنے لگا ۔ میرے شیخ میرے رہبر اس میں تو زانو زانو پانی ھے تو اتنے میں ہی دہشت کھا گیا ۔ اونٹ نے کہا اے پیش رو سفر کھوٹا نہ کرو سیدھے سیدھے پانی میں آکر رہبری کر تمہیں تو میری رہبری پر بڑا فخر اور ناز تھا ۔ چوہے نے کہا جناب آپ کے زانو اور میرے زانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے آپ مجھے غرق کرنا چاھتے ہیں جو پانی آپ کے زانو تک ھے وہ میرے سر سے سو گنا اونچا ھے ۔
چوہے کو جب اپنی اوقات کا پتا چل گیا تو کہنے لگا ! جناب میں اپنے کۓ پر بہت شرمندہ ہوں میری توبہ مجھے معاف کردیجۓ آٸندہ کبھی مقتدا اور شیخ بننے کی کوشش نہیں کروں گا ۔ اور دبارہ زندگی بھر ایسی غلطی نھیں کروں گا ۔اب خدا کے لۓ اس خطرناک ندی سے پار کرا دیں ۔ اونٹ نے غصے میں آکر کہا خبردار آٸندہ اپنے اونپر اتنا گھمنڈ نہ کرنا ۔ تو اپنے جیسے چوہوں میں جاکر السی نوابی کر اپنی اوقات سے بڑے کے سامنے شیخی نہیں کرنی چاھیے......جتنی چادر ہو اتنے پاٶں پھیلانے چاہییں"۔ اونٹ کو چوہے کی توبہ اور ندامت پر رحم آگیا ۔اس نے کہا میری کوہان پر آکر بیٹھ جا تجھ جیسے ہزاروں چوہوں کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر ایسے پر خطر حالات میں ندی سے بحفاظت پار لے جا سکتا ہوں
درس حیات
اگر خدا نے تجھے سلطان نہیں بنایا تو رعایا بن کر رو ..... کشتی چلانا نہیں آتا تو ملاح مت بن
دل کے اندھے || سبق آموز واقعہ || Urdu Moral Story ||
دل کے اندھے
دوستو" ایک دیہاتی کو اپنی پالتو گاۓ سے بہت محبت تھی ۔ دن رات اسکو نگاہوں کے سامنے رکھتا اور ہر دم اس کی دیکھ بھال میں لگا رھتا ۔ ایک دن وہ گاۓ کوباڑے میں باندھ کر اچانک کسی ضروری کام سے چلا گیا ۔ اس دن دیہاتی اتفاق سے باڑے کا دروازہ بند کرنا بھول گیا ۔جنگل کا شیر کٸ دنوں سے اس گاۓ کی تاک میں تھا ۔ اس دن شیر کو موقع مل گیا ۔ شیر رات کی تاریکی میں دبے پاٶں آیا ۔ باڑے میں گھسا اور گاۓ کو چیر پھاڑ کر ہڑپ کرگیا ۔ شیر گاۓ کو کھانے کے بعد وہیں باڑے میں بیٹھ گیا ۔ دیہاتی رات گۓ گھر واپس آیا اور گاۓ کو دیکھنے کے لۓ باڑے میں گھس گیا ۔ وہاں گھپ اندھیرا تھا ۔شیر گاۓ کو کھا کر وہیں مست بیٹھا ہوا تھا ۔ دیہاتی نے شیر کو گاۓ سمجھ کر پیار سے پکارہ پھر اس کے پاس بیٹھ کر پیار سے اسکی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔ دیہاتی احمق کو اگر پتا چل جاتا کہ جسے وہ گاۓ سمجھ کر پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا ہے وہ آگے بیٹھا ہوا جنگل کا بادشاہ شیر ھے تو مارے دہشت کے اس کا جگر پھٹ جاتا اور دل پھٹ جاتا اور دل خون ہو جاتا ۔ اللّہ تعالیٰ کا نام ھم نے صرف پڑھا اور سنا ھے ۔ اور لفظ اللّہ صرف زبان سے ہی پکارتے رہتے ہیں ۔ اگر اس پاک ذات کی ذرہ سی حقیقت بھی ہم پر واضح ہو جاۓ تو جو ہمارا حال ھو گا ہم اسے نہیں جان سکتے ۔کوہ طور پر تجلی پڑنے سے جو اسکا حال ہوا اسکی سب کو خبر ھے ۔
درس حیات
تیرا نفس اس خونخوار شیر سے بھی زیادہ خطرناک ھے جسے تو اندھے پن میں فریب خوردہ ہو کر اور گاۓ سمجھ کر پال رہا ھے ۔اسکا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا ۔ ابھی وقت ہے اپنی اصلاح کرلے ۔
حکایات رومی
Saturday, October 12, 2019
موت سے فرار ممکن نہیں || ایک سبق آموز واقعہ || Urdu Moral Story ||
موت سے فرار ممکن نہیں
دوستو" حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ایک آدمی لرزاں و ترساں حاضر ھوا ۔ مارے ہیبت کے اسکی آواز نہیں نکل رھی تھی ۔ چہرہ دھلے ہوۓ کپڑے کی طرح سفید ہو گیا تھا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی کیفیّت ملحاحظہ فرماٸی ۔ تو پوچھا اۓخدا کے بندے!کیا بات ھے؟ تو اتنا گھبرایا ہوا اور مضطرب کیوں ھے؟ اس نے عرض کیا " یا حضرت مجھے عزراٸیل علیہ السلام نظر آۓ اس نے مجھ پر ایسی غضب آلود نظر ڈالی کہ میرے حوش و حواس گم گۓ ۔ رواں رواں تھرا گیا ۔ اب بار بار حضرت عزراٸیل علیہ السلام کی وہ صورت آنکھوں میں نظر آتی ہے ۔ اس لۓ مجھے کسی گھڑی بھی چین نہیں آرہا "اس نے التجا کی کہ آپ ہوا کو حکم دیں کہ مجھے یہاں سے ہزاروں میل دور ملک ہندستان میں چھوڑ آۓ ۔ ممکن ھے اس تدبیر میرا خوف کچھ دور ہو جاۓ ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی وقت ہوا کو حکم دیا کی اس شخص کو ہندوستان کی سرزمین پر چھوڑ آۓ ۔ جونہی اس شخص نے زمین پر قدم رکھا " وہاں حضرت عزراٸیل علیہ السلام کو منتظر پایا ۔ آپ نے اللّہ کے حکم سے اسکی روح قبض کر لی ۔
دوسرے دن حضرت سلیمان علیہ السلام نے بوقت ملاقات حضرت عزراٸیل علیہ السلام سے دریافت کیا آپ نے ایک شخص کو اتنے غور سے کیوں دیکھا کیا آپ کا ارادہ اس کی روح قبض کرنے کا تھا یا اس بیچارے کو غریب الوطنی میں لاوارث کرنا تھا ۔
حضرت عزراٸل علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں نے جب اس شخص کو یہاں دیکھا تو حیران ہوا کیونکہ اللّہ تعالیٰ نے مجھے اس شخص کی روح ہندستان میں قبض کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اور یہ شخص ہزاروں میل دور یہاں موجود تھا حکم الٰہی سے میں ہندستان پہنچا تو میں نے اس کو وہاں موجود پایا ۔
درس حیات
انسان لاکھ تدبیر کرے ۔ تقدیر اسے وہیں لے جاتی ھے جہاں اس کا نصیب ہو اور وہ خود تقدیر کے عزاٸم کو پورا کرنے ۔کے لۓ اسباب فراہم کرتا ھے
Thursday, October 10, 2019
حضرت سلیمان علیہ السلام اور ہُد ہُد کا قصہ || سبق آموز واقعہ || Urdu Moral Story ||
حضرت سلیمان علیہ السلام اور ہد ہد کا قصہ
حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں سے ہم کلام ہونے کی قدرت رکھتے تھے۔ پرندوں نے جب حضرت سلیمان علہ کو زبان دان اور محرم پایا تو چوں چوں ترک کی اور پیغمبر علہ کی صحبت اختیار کر لی ۔ حضرت سلیمان علہ کے دربار میں کیا چرند کیا پرند سبھی حکمت اور داناٸی کی باتیں کرتے تھے ۔ایک دن دربار لگا ہوا تھا اور حاضرین معمول کے متابق اپنی اپنی زبان میں باتیں کر رھے تھے ۔ تجربے اور داناٸی کی نہریں رواں تھیں ۔ اس روز پرندے اپنی صفات اور ہنر بیان کر رہے تھے ۔ آخر میں ہدہد کی باری آٸی اس نے کہا" اے علم و حکمت کے بادشاہ! میرے اندر ایک خوبی ھے جو عرض کرنیکی جسارت کرنا چاھتا ہوں ۔ داناٶں نے کہا ھے کہ مختصر کلام ہی فاٸدہ مند ہوتا ھے میں اڑتے ہوۓ بلندی سے زیر زمین پانی کا اندازہ لگا لیتا ہوں کتنی گہراٸی میں ھے اور اسکی کیا خاصیت ھے ۔ زمین سے نکل رہا ھے یا پہاڑ سے رِس رہا ھے ۔
حضرت سلیمان علیہ نے ہدہد کی اس خوبی کی بہت تعریف کی اور اجازت عطا فرماٸی کہ" بے آب و گیان صحراٶں میں سفر کے دوران توں ہمارے ہراول کے ساتھ رہا کر تاکہ پانی کا کھوج لگاتا رھے ۔
زاغ بد نیّت نے جب یہ سنا کہ ہُد ہُد کو ہراول میں شریک رہنے کا اعزاز عطا ہوا ھے تو مارے حسد کے انگاروں پر لوٹنے لگا ۔ فوراً پیغمبر علیہ السلام کے سامنے آکر کہنے لگا ۔ ہُد ہُد نے آپ علیہ السلام کے سامنے گستاخی کی ھے ۔اور جھوٹا دعویٰ کیا ھے ۔ اسے اس کذب بیانی کی سزا دی جاۓ ۔ اس سے پوچھۓ کہ تیری نظر اتنی تیز ھے کہ پاتال میں چھپی ہوٸی چیزوں کی خبر دیتی ھے ۔ تو پھر تجھے زمین پر بچھا ہوا جال کیوں نظر نھیں آتا جو شکاری تجھے پھانسنے کے لۓ لگاتا ھے ایسا ہنر رکھتا ھے تو جال میں کیوں پھنس جاتا ھے آسمان کی بلندیوں سے وہ جال کیوں نھیں دیکھ پاتا ۔زاغ بدنیّت کی بات سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہُد ہُد سے دریافت کیا دعوۓ کی صداقت کا ثبوت پیش کر ۔"
ہُد ہُد نے بے خوف ہو کر عرض کیا ۔ اے بادشاہ سلامت میرا دعوٸ صحیح نہ ہو تو میری گردن حاضر ھے ۔ یہ صفت مجھے قدرت نے عطا کی ھے جب قدرت ھی یہ صفت صلب کرلے ۔ جب فرمانِ قضا و قدر جاری ہو اور میرا اخیر وقت آجاۓ تو نگاہ کی خوبی کیا کرے ۔ ایسے موقع پر عقل کام نہیں کرتی چاند سیاہ ہو جاتا ہے اور سورج گہن میں آجاتا ہے ۔
درس حیات
(حکایاتِ رومیؒ)
Urdu Moral Stories
عقلمند چڑیا اور بے وقوف شکاری || سبق آموز واقعہ || Urdu Moral Stoty ||
ایک چڑیا اور بے وقوف شکاری
ایک شخص نے چڑیا پکڑنے کےلئے جال بچھایا.. اتفاق سےایک چڑیا اس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑ لیا..چڑیا نے اس سے کہا.. ” اے انسان ! تم نے کئی ھرن ‘ بکرے اور مرغ وغیرہ کھاۓ ھیں ان چیزوں کے مقابلے میں میری کیا حقیقت ھے.. ذرا سا گوشت میرے جسم میں ھے اس سے تمہارا کیا بنے گا..؟ تمہارا تو پیٹ بھی نہیں بھرے گا.. لیکن اگر تم مجھے آزاد کر دو تو میں تمہیں بڑی ھی کام میں آنے والی نصیحتیں کرونگیجن پر عمل کرنا تمہارے لئے بہت مفید ھوگا..ان میں سے ایک نصیحت تو میں ابھی ھی کرونگی.. جبکہ دوسری اس وقت کرونگی جب تم مجھے چھوڑ دو گے اور میں دیوار پر جا بیٹھوں گی.. اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کرونگی جب دیوار سےاڑ کر سامنے درخت کی شاخ پر جا بیٹھونگی.. “اس شخص کے دل میں تجسس پیدا ھوا کہ ناجانے چڑیا کیا فائدہ مند نصیحتیں کرے گی.. اس نے چڑیا کی بات مانتے ھوئے اس سے پوچھا.. ” تم مجھے پہلی نصیحت کرو ‘ پھر میں تمہیں چھوڑ دونگا.. “چنانچہ چڑیا نے کہا.. ” میری پہلی نصیحت تو یہ ھے کہ” جو بات کبھی نہیں ھو سکتی اسکا یقین مت کرنا.. “یہ سن کر اس آدمی نے چڑیا کو چھوڑ دیا اور وہ سامنے دیوار پر جا بیٹھی.. پھر بولی.. ” میری دوسری نصیحت یہ ھے کہ “جو بات ھو جاۓ اسکا غم نہ کرنا..”اور پھر کہنے لگی.. ” اے بھلے مانس! تم نے مجھے چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی.. کیونکہ میرے پیٹ میں پاؤ بھر کا انتہائی نایاب پتھر ھے.. اگر تم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کو نکال لیتے تو اس کے فروخت کرنے سے تمہیں اس قدر دولت حاصل ھوتی کہ تمہاری آنے والی کئی نسلوں کے لئے کافی ھوتی.. اور تم بہت بڑے رئیس ھو جاتے.. “اس شخص نے جو یہ بات سنی تو لگا
افسوس کرنے.. اور پچھتایا.. کہ اس چڑیا کو چھوڑ کر اپنی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی.. اگر اسے نہ چھوڑتا تو میری نسلیں سنور جاتیں..چڑیا نے جو اسے اسطرح سوچ میں پڑے دیکھا تو اڑ کر درخت کی شاخ پر جا بیٹھی اور پولی.. ” اے بھلے مانس! ابھی میں نے تمہیں پہلی نصیحت کی جسے تم بھول گئے کہ “جو بات نہ ھو سکنے والی ھو اسکا ھر گز یقین نہ کرنا..” لیکن تم نے میری اس بات کا اعتبار کرلیا کہ
میں چھٹانک بھر وزن رکھنے والی چڑیا اپنے پیٹ میں پاؤ وزن کا موتی رکھتی ھوں.. کیا یہ ممکن ھے..؟میں نے تمہیں دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ ” جو بات ھو جاۓ اسکا غم نہ کرنا”۔ مگر تم نے دوسری نصیحت کا بھی کوئی اثر نہ لیا اور غم و افسوس میں مبتلا ھو گئے کہ خواہ مخواہ مجھے جانے دیا..تمہیں کوئی بھی نصیحت کرنا بالکل بیکار ھے.. تم نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کب عمل کیا جو تیسری پرکرو گے
تم نصیحت کے قابل نہیں.. “یہ کہتے ھوۓ چڑیا پھر سے اڑی.. اور ھوا میں پرواز کر گئی ۔
درس حیات
خردماغ اور جاہل کو نصیحت کرنا ایسے ھے جیسے بنجر زمین میں بیج بونا(حکایات رومیؒ)
Urdu Moral Stories
ایک سپیرا اور اژدھا || سبق آموز واقعہ || Urdu Moral Story ||
ایک سپیرا اور اژدھا
دوستو" ایک سپیرا دن رات نت نۓ اور زہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگل ، بیاباں ، کوہ ، صحرا میں مارا مارا پھرتا رھتا تھا ۔ ایک مرتبہ سخت سردی کے موسم میں وہ پہاڑوں میں سانپ تلاش کر رہا تھا ۔کہ اس نے ایک مردہ اژدھا دیکھا جو کافی بھاری بھرکم تھا اور قوی الجثہ تھا ۔ اس کو خیال آیا کہ اگر اس مردہ اژدھے کو کسی طرح شہر لے جاٶں تو دیکھنے والوں کا ہجوم لگ جاۓ گا ۔ لوگوں کے جمع ہو جانے سے میں خوب مال کماٶں گا ۔
اژدھا کیا تھا ایک ستون کا ستون تھا ۔ وہ اس کو بڑی مشکل سے جان جوکھم میں ڈال کرگھسیٹ کر شھر لے آیا ۔ غرض سپیرے کے اس کارنامے سے شہر بغداد میں اودھم برپا ہو گیا ۔ توں چل میں چل جس کے کانوں میں یہ خبر پہنچی کہ سپیرا ایک نادر و نایاب قسم کا سانپ پکڑ کر آیا ہے وہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر چل پڑا اسے دیکھنے کے لۓ ہزاروں لوگ جمع ہو گۓ ۔
دراصل اژدھا مردہ نہیں تھا بلکہ بہت زیادہ سردی کی وجہ سے اس کا جسم سن ہو چکا تھا ۔ ہجوم کی گرمی اور سورج کی روشنی سے اچانک اژدھے کے جسم میں تھرتھری پیدا ہوٸی اور اس نے اپنا منہ کھول دیا ۔ اژدھے کا منہ کھولنا تھا کہ قیامت برپا ہو گٸ ۔ بدحواسی اور خوف سے جس کا جدھر منہ اٹھا وہ اسی طرف کو بھاگ نکلا ۔ جوں جوں آفتاب کی گرم دھوپ اژدھے پر پڑتی تھی توں توں اس کے جوڑ جوڑ اور بند بند سے زندگی نمودار ہو رہی تھی ۔ مارے خوف و دہشت کے سپیرے کے ہاتھ پاٶں پھول گۓ اس نے جی میں کہا غضب ہو گیا ۔ میں پہاڑ سے کس آفت کو اٹھا لایا ۔ اپنے ہاتھوں اپنی موت بلا لی ۔ ابھی وہ بھاگنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا غار سا منہ کھولا اور سپیرے کو نگل لیا ۔ پھر وہ رینگتا ہوا آگے بڑھا اور ایک بلند عمارت کے ستون سے اپنے آپ کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہو گٸیں ۔
درس حیات
دوستو" ہمارا نفس بھی اژدھے کی مانند ھے اسے مردہ نہ سمجھنا ۔ ذراٸع اور وساٸل نہ ہونے کی وجہ سے ٹھٹھڑا ہوا نظر آتا ھے ۔ ۔ اللّہ تعالیٰ کی عبادت سے غفلت اور دنیاداری کی حرارت سے وہ حرکت میں آجا تا ھے ۔۔( ماخوذ حکایاتِ رومیؒ)
Urdu Moral Storyies
Monday, October 7, 2019
ایک سبق آموز واقعہ || اردو مورال سٹوری || شیر بھیڑیا اور لومڑی کا قصہ ||
ایک سبق آموز واقعہ
دوستو " ایک دفعہ کا ذکر ھے شیر بھیڑیا اور لومڑی اکھٹے شکار کو نکلے۔ ان کو شکار میں نیل گاۓ ،جنگلی بکرہ،اور خرگوش ملا ۔شیر نے دیکھا کہ بھڑیا اور لومڑی بھی شکار میں حصے کی خواہش رکھتے ہیں۔اس نےانکی نیّتوں کو بھانپ کر پہلے بھیڑیۓ کو اپنے پاس بلایا۔ کہ وہ انصاف سے تقسیم کرے ۔ بھیڑیۓ نے کہا ۔ بادشاہ سلامت آپ سب سے بڑے ہیں اس لۓ نیل گاۓ آپکا حصہ ھے کیونکہ جنگلی بکرہ درمیانہ ھے اس لۓ وہ میرا حصہ ھے اور خرگوش لومڑی کو دے دیں ۔ شیر نے کہا ۔ میرے سامنے تیری یہ جرأت کہ میرے ہوتے ہوۓ تو انصاف کرے ۔ اس نے بھیڑیۓ کو قریب بلاکر اس زور سے پنجہ مارا کہ وہ ہلاک ھو گیا ۔ پھر اس نے لومڑی کو بلایا اور تقسیم کے لۓ کہا ۔ لومڑی نے با ادب ھوکرکہا حضور تقسیم کیسی آپ بادشاہ ہیں ۔ نیل گاۓ آپکا صبح کا ناشتہ بکرہ دوپہر کو اور خرگوش شام میں تناول فرما لیجۓ گا ۔ شیر اس تقسیم سے بہت خوش ھوا اور اس کی انصاف پسندی کی داد دیتے ھوۓ پوچھا کہ“ یہ انصاف کی تقسیم تم نے کہاں سے سیکھی ۔
لومڑی کہا جناب“ بھیڑیۓ کے انجام سے “ شیر اس بات سے بہت خوش ھوا اور سارا شکار لومڑی کو دے دیا
درس حیات
دوسروں کے انجام سے سبق حاصل کرنا عقلمندوں کا شیوا ھے یہ ان کو انجام بد سے پچا لیتا ھے ۔Husnain Abbas khan
ایک مفلس فقیر اور مدفون خزانہ
ایک مفلس فقیر اور مدفون خزانہ
ایک فقیر بہت مفلس اور کنگال تھا اس کی دعا رب تعالیٰ سے یہی تھی کہ تو نے بغیر مشقت کے مجھے پیدا کیا اب بغیر مشقت کے روزی بھی دے وہ مسلسل یہی دعا مانگا کرتا تھا
اللّہ تعالیٰ نے اسکی دعا قبول کی اور اس کو خواب آیا کہ توں ردی والے کی دکان پر جا وہاں تجھے بوسیدہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ملے گا وہ لے کر آ اور اسے تنہاٸی میں پڑھ ۔ وہ صبح اٹھا ردی والے کی دکان پر گیا تلاش کرنے پر اسے وہ کاغذ کا بوسیدہ ٹکڑا ملا جو وہ رات کو خواب میں دیکھ چکا تھا وہ اسکو گھر لے آیا اور تنہاٸی میں اسے پڑھا پرچے پر تحریر تھا کہ شہر سے باہر ایک مزار ھے وہاں پر خزانہ دفن ھے مزار کی طرف پشت کر اور منہ قبلہ کی طرف کرکے تیر کمان میں رکھ جہاں پر تیر گرے وہاں پر خذانہ دفن ھوگا فقیر نے تیر کمان لیکر اپنے جوہر دکھانے شروع کردیۓ ۔ جہاں پر تیر گرتا وہا جلدی سے بیلچے اور پھاٶڑے سے زمین کھودنا شروع کردیتا ۔ بیلچہ پھاٶڑہ اور وہ فقیر کند ہو گۓ مگر خزانے کا کہیں نام ونشان نہ ملا ۔ وہ روزانہ اسی طرح عمل کرتا تیر پھینکتا جہاں تیر گرتا اس جگہ کو کھود دیتا مگر خزانہ نہ ملا ۔ فقیر کے اس پروگرام کا بادشاہ وقت کو پتا چلا اس نے فقیر کو طلب کیا اور اس سے ماجرہ پوچھا ۔ فقیر نے سارا واقعہ کہہ سنایا
اور کہنے لگا جب سے خزانے کا پتا پایا ھے تلاش میں ہوں خزانہ تو نہ ملا سخت تکلیف اورمشقت میرا مقدر بن گٸ ھے ۔
بادشاہ نے فقیر سے وہ گنج نامہ لے لیا اور چھ ماہ تک تیراندازی کرتا رہا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا ۔
بادشاہ سلامت نے بھی مایوس ھو کر وہ گنج نامہ فقیر کو واپس کردیا ۔
فقیر نے پھر اللّہ تعالیٰ سے رجوع کیا ۔ عاجزی و انکساری اور آنکھیں اشکبار کرکے دعا کی اے اللّہ تعالیٰ یہ عقدہ میری سمجھ سے بالا تر ھے میں اس راز کو نہ پاسکا تو خود ہی کمال مہربانی سے اسے حل فرما دے اور مجھے خزانے تک پہنچا دے جب وہ عاجز ہو کر بارگاہ الہیٰ میں سچے دل سے گر پڑا تو آواز آٸی ۔ میں نے تجھے تیر کمان میں رکھنے کو کہا تھا ۔ تجھے تیر چلانے اور کمالات دکھانے کو نہیں کہا تھا ۔ خزانہ تیرے پاس تھا ۔ تیرے قریب تھا ۔ تو تیراندازی کے سفر میں اس سے دور ہوتا گیا ۔ خدا کی ذات کو اپنے اندر اپنے دل میں تلاش کر جو شہ رگ سے بھی قریب ھے ۔اپنے من میں ڈوب تو خزانے تک بھی پہنچ جاۓ گا
درس حیات
اس کے کرم سے گنج نامہ تو مل جاتا ھے مگر انسان جلد بازی چالاکی اور ہوشیاری سے پانے کی کوشش کرتا ھے یہ جوہر عاجزی انکساری اور من میں تلاش کرنے سے ملتا ھے ۔Sunday, October 6, 2019
Hazrat khezir as Aur Aik Abid ka kisses Urdu Moral story Sabaq Amoz Waqia,
خضر علیہ السلام اور ایک عابد کا قصہ
دوستو! ایک نیاز مند کثرت سے ذکر الہٰی کرتا رہتا تھا حتکہ ایک دن اس پرخلوص ذکر سے اس کے لب شیریں ہوگۓ ......... شیطان نے اسے وسوسے میں ڈال دیا بے فاٸدہ ذکر کی کثرت کررہا ہے ! تو اللّہ اللّہ کرتا رہتا ہے . جبکہ اللّہ کی طرف سے کبھی لبیک کی صدا ایک بار بھی نہیں آٸی ! اور نہ اللّہ کی طرف سے کوٸی جواب ملتا ہے ، پھر یکطرفہ محبت کی پینگ بڑھانے سے کیا فاٸدہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرا ذکرالہٰی اللّہ کے ہان مقبول نہیں ہے .............
شیطان کی ان پرفریب باتوں سے عابد نے ذکر کرنا چھوڑ دیا شکستہ دل اور افسردہ ھو کر سو گیا ! انکھ سو گٸ قسمت جاگ گٸ
عالم خواب میں دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لاۓ اور فرمایا کہ ذکر الہٰی میں غفلت کیوں کی ! اے نیک بخت ذکر حق کیوں چھوڑ دیا ' آخر توں اس ذکر پاک سے پشیمان کیوں ہو گیا ؟ اس نے کہا بارگاہ الہٰی سے مجھے کوٸی جواب ہی نہیں ملتا : اس سے میرے دل میں خیال آیا کہ میرا ذکر قبول ہی نہیں ہو رہا
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا تمہارے لۓاللّہ تعالیٰ نے پیغام بھیجا ہے کہ تیرا اللّہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہونا اور دوسرا تمہارا پہلی مرتبہ اللّہ کہنا قبول ہوتا ہے تو دوسری دفعہ اللّہ کہنے کی توفیق ملتی ہے .......
اور تمہارے دل میں یہ جو سوز و گداز ھے اور میری چاہت محبت اور تڑپ ھے یہی تمہارے ذکر کی قبولیّت کی نشانی ہے اے میرے بندے ! میری محبت میں تیری یہ تدبیریں اور محنتیں سب ہماری طرف سے جزب و کشش کا ہی عکس ہیں'
اے بندے! تیرا یہ خوف اور میری ذات سے تیرا یہ عشق میرا ہی انعام ھے ' اور میری ھی مہربانی و محبت کی کشش ہے کہ تیری ہر یااللّہ کی پکار میں میرا لبیک شامل ہوتا ہے
تمہارے ذکر کی قبولیّت کی یہی نشانی ہے کہ تجھے ذکر الیٰی میں مشغول کردیا ہے !
ایک جاھل اور غافل ذکر حق اور دعا مانگنے کی توفیق سے محروم رہتا ہے اللّہ کے ذکر کا اجر اس ذکر میں ھی پوشیدہ ھوتا ھے !
اللّہ تعالیٰ اپنے ذکر کی اور یاد کی توفیق اسی کو عطا کرتے ہیں جس سے وہ خوش ہوتے ہیں اور یہی اس کی قبولّیت کی دلیل ہے
درس ھدایت
1۔نیکی کرنے کی توفیق بھی اللّہ ہی دیتا ھے2۔شیطان ہردم اس کوشش میں رھتا ہے کہ انسان کسی طرح اللّہ کے ذکر سے باز آجاۓ
Husnain abbas khan
Thursday, October 3, 2019
صبر و تحمل کا انعام
﷽
صبر اور تحمل کا انعام
درس حیات
مخلوق خدا پر رحم کرنے سے دنیا اور آخرت میں سرفرازی عطا ھوتی ھےHusnain Abbas khan
بے وقوف کی صحبت || اردو مورال سٹوری ||
بے وقوف کی صحبت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام تیز تیز قدم اٹھاتے ایک پہاڑ کی طرف جا رھے تھے ایک آدمی نے پوچھا اۓ اللّہ کے رسول علیہ السلام آپ اس وقت کہاں تشریف لے جارھے ہیں وجہ خوف کیا ھے آپ علیہ السلام کے پیچھے کوٸی دشمن بھی نہیں نظر آتا ........عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ٗ میں ایک بے وقوف آدمی سے بھاگ رہا ہوں تو اس میں خلل مت ڈال“ ... اس آدمی نے کہا یا حضرت کیا آپ وہ مسیحا علیہ السلام نہیں ہیں .....جن کی برکت سے اندھا اور بہرا شفا۶ یاب ہو جاتا آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں ......... اس شخص نے کہا کیا آپ علیہ السلام وہ بادشاہ نہیں ہیں جو مردوں پر کلام الہٰی پڑھتا ھے اور مدے کھڑے ہو جاتے ہیں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں .......... اس آدمی نے کہا کیا آپ علیہ السلام وہ نھیں ہیں جو مٹی کے پرندوں پر دم کریں تو وہ فوراً اڑنے لگتے ہیں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک میں وہی ہوں ....... پھر اس شخص نے حیرانگی سے کہا پھر آپ علیہ السلا کو کس کا خوف ھے ............ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اس رب العزت کی قسم جس کے اسم اعظم کو میں نے اندھوں اور بہروں پر پڑھا تو وہ شفا۶ یاب ھوے پہاڑوں پر پڑھا تو وہ ہٹ گۓ مردوں پر پڑھا تو وہ جی اٹھے لیکن وہی اسم اعظم میں نے احمق پر لاکھوں بار پڑھا تو اس پر کوٸی اثر نہیں ہوا .......... اس آدمی نے کہا کہ یا حضرت علیہ السلام یہ کیا ہے کہ اسم اعظم اندھوں بہروں اور مردوں پر تو اثر کرے لیکن ایک احمق پر نہیں حلانکہ حماقت بھی ایک مرض ھے ........... حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا حماقت کی بیماری خداٸی قہر ھے
درس حیات
بیوقوف کی صحبت سے تنہاٸی بہتر ھےWednesday, October 2, 2019
استون حنانہ
منبر رسول ﷺ بننے سے پہلے حضور ﷺ خشک کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے
جب پختہ منبر رسول ﷺ تیار ہو گیا اور آپﷺ منبر پر تشریف فرما ہوۓ تو خشک کھجور کے تنے سے یہ صدمہ جداٸی برداشت نہیں ہوا
اس نے اس طرح رونا شروع کیا جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں کی جداٸی میں روتا ھے
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں خشک کھجور کا تنا
جس کا نام استونِ حنانہ تھا حضور ﷺ کی جداٸی میں نالہ کر رہا تھا مثل اربابِ عقول کے یعنی جس طرح کوٸی انسان رو رہا ہو
اس آوازِ گریہ سے..... اصحاب رسول ﷺ تعجب میں پڑ گۓ کہ یہ ستون اپنے پورے حجم طول و ارض سے کس طرح رو رہا ھے آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تو اس طرح کیوں رو رہا ھے اس نے عرض کیا یا رسول اللّہ ﷺ مجھ سے آپ ﷺ کا صدمہ جداٸی برداشت نہیں ھوتا آپ ﷺ کی جداٸی سے میری جان اندر ہی اندر جل رہی ہے اس آتش غم کے ہوتے ہوۓ میں کیوں آہ وفغاں نی کروں..... ............یا رسول اللّہ ﷺ آپ ہی تو جان کاٸنات ہیں آپ ﷺ پہلے مجھ سے ٹیک لگا لیا کرتے تھے اب مجھ سے الگ ہو گۓ ہیں اور میری جگہ دوسرا منبر پسند فرما لیا ھے
حضور انور ﷺ نے ارشاد فرمایا
آۓ مبارک ستون تو چاہتا ھے تو میں تیرے لۓ دعا فرماٶں کہ توں سرسبز اور ثمر آور درخت ہو جاۓ اور تیرے پھلوں سے ہر شرقی و غربی مستفید ہواور کیا توں ہمیشہ کے لۓ تروتازہ ہونا چاھتا ہے یا تو پھر عالم آخرت میں کچھ چاھتا ھے استونِ حنانہ نے کہا یا رسول اللّہ ﷺ میں تو ابدی اور داٸمی نعمت چاھتا ہوں
مولانا رومؒ فرماتے ہیں ...آۓ غافل ! تمھیں اس لکڑی سے سبق لینا چاھیۓ کہ توں انسان ہو کر دنیا فانی کا گرویدہ ہے اور آخرت سے رو گرداں ہو رہے ہو جبکہ ستونِ حنانہ نعمت داٸمی کونعمت فانی پر ترجیح دے رہا ھے;
پھر اس ستونِ حنانہ کو زمین میں دفن کر دیا گیا تاکہ روز جزا مثل انسانوں کے اس کا حشر ھو
( درس حیات)
اگر حضورﷺ کی محبت و چاھت نھیں تو اسکی زندگی بھی بے معنی ہوگی وہ بدنصیب عالم برزخ اور آخرت میں بھی رحمت الہٰی سے محروم رھیگا
Husnain Abbas khan
سیاہ سانپ || اردو مورال سٹوری ||
سیاہ سانپ
رسول اللّہﷺ نے ایک مرتبہ وضو کرنے کا ارادہ فرمایا تو ایک عقاب آپﷺ کا ایک موزہ اڑا کر لے گیاآپﷺ یہ دیکھ کر حیران ہوۓ تھوڑے ہی وقفے کے بعدعقاب نے موزے کا منہ زمین کی طرف کیا موزے میں سے ایک سیاہ سانپ نیچے گرا اس عمل کے بعد عقاب آپﷺ کا موزہ لیکرآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا
یا رسول اللّہﷺ اسی لیۓ یہ گستاخی کی تھی کہ اس کے اندر ایک سیاہ سانپ گھسا ہوا تھا خدا تعالیٰ نے مجھے آپﷺ کی حفاظت پر معمور کیا تھا ورنہ میری کیا مجال تھی کہ آپﷺ کے سامنے یہ گستاخی کرتا
آپﷺ نے اللّہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور فرمایا ہم نے جس حادثہ کو باعث صدمہ سمجھا دراصل وہ وفا اورباعث رحمت تھا
عقاب نے عرض کیا کہ میں نے ہوا میں اڑتے ہوۓ موزہ پاک میں سانپ کو دیکھ لیا تھا تو یہ میرا کمال نھیں یا رسول اللّہﷺ یہ آپﷺ کے ہی نور اور روشنی کا فیضان اور عکس تھا آپﷺ تو سراج و منیر ہیں اگر کسی دل کے اندھے کو نظر نھیں آتا تو یہ اس کا قصور ھے کیونکہ تاریکی کا عکس تاریک ہی ہوتا ھے
(درس حیات)
آٸی ہوٸی مصیبت کسی بڑی مصیبت سے بچانے کا باعث ہوتی ہے اسی لۓ اپنے حالات اللّہ کے سپرد ھی رکھنا چاھیۓ
Husnain abbas
Tuesday, October 1, 2019
لطیفہ
ایک بوڑھی عورت نے 100 پولیس
والوں کی دعوت کی انسپکٹر میاں بی! یہ کھانا کس خوشی میں ہے؟؟ بوڑھی عورت میں نے دعا مانگی تھی کہ جب میرا گھر بن جائے گا تو میں 100 حرام زادوں کی دعوت کروں گی، اس لیے میں نے تم لوگوں کی دعوت کی انسپکٹر ہنستے ہوئے بولا: اماں بھی اتنا تکلف کیوں کیا؟ واپڈا والا ایک ہی کافی تھا
Subscribe to:
Posts (Atom)